دس نسلوں کی دھمکی اور جرنیلی غرور!

تحریر: رامین بلوچ ( تیسرا حصہ)

زرمبش مضمون

سویت یونین نظریے، طاقت اور اسلحے کی گرجدار دیواروں میں لپٹی ہوئی ایک سلطنت، جو نصف دنیا پر سرخ ستارے کا سایہ ڈال کر انسانوں کو فرد کی بجائے مشین سمجھ بیٹھی تھی—اپنے ہی تضادات کے وزن تلے بکھر گئی۔ طاقت کے جوہر میں جب فرد کا انکار شامل ہو، جب
آزادی قربانی بن جائے اور جب نظریہ انسان پر حاوی ہو جائے، تو انقلاب استبداد میں بدل جاتا ہے اور مزاحمت اُس کے جنازے کو کندھا دیتی ہے۔
پرتگالی، ہسپانوی، فرانسیسی، ڈچ، جرمن، اطالوی اور خلافتِ عثمانیہ—ہر ایک سلطنت ایک ہی جرم میں فنا ہوئی: انسانی وقومی خودمختاریوں کو پامال کرنا۔ وہ سب تاریخ کے صفحوں میں شکست خوردہ بن کر رہ گئیں، کیونکہ انہوں نے اس بنیادی سچائی کو نظرانداز کیا: انسان کو غلام بنایا جا سکتا ہے، لیکن اس کی فطری آزادی کو ہمیشہ کے لیے دفن نہیں کیا جا سکتا۔
تاریخ میں سلطنتیں اس وقت فنا ہوتی ہیں جب وہ اپنے اقتدار کو "تقدیر” سمجھ بیٹھتی ہیں، جب وہ اس گمان میں مبتلا ہو جاتی ہیں کہ ان کی طاقت ابدی ہے، اور جب وہ انسانوں کی آواز کو دبا کر "خاموشی” کو نظم و نسق سمجھ لیتی ہیں۔ لیکن انسان کی فطرت میں مزاحمت ہے، سوال
ہے، آزادی ہے۔ وہ غلامی کو قبول نہیں کرتا، چاہے زنجیر سونے کی ہو یا نظریے کی، چاہے جبر بادشاہ کے تاج سے آئے یا پارلیمان کے قانون سے۔
تاریخ انسان کے ان لمحوں کا مجموعہ ہے جب اس نے طاقت کے جھوٹے دعوؤں کو للکارا، جب اس نے خون، خواب، اور قربانی سے آزادی کو ممکن بنایا۔ آج کی دنیا میں جو بھی ریاست، نظام یا طاقت اس فریب میں ہے کہ وہ اقوام کو جھکا کر ان کی تقدیر لکھ سکتی ہے، وہ دراصل تاریخ
کے اُس گرداب میں داخل ہو چکی ہے جہاں سے کبھی کوئی سامراج واپس نہ آ سکا۔
یہ وقت تاریخ کے قبرستان پر کھڑے ہو کر صرف ماتم کرنے کا نہیں، بلکہ ان قبروں سے ابھرنے والے سبق کو سینے سے لگانے کا ہے۔ ہر وہ نوآبادیاتء طاقت جو انسان کی آزادی، خودی اور فطری حق کو روندتی ہے، وہ چاہے کتنی ہی مقدس، ترقی یافتہ، یا نظریاتی ہو—آخرکار فنا ہو جاتی ہے۔ یہی قانونِ فطرت ہے، یہی مزاحمت کا فلسفہ ہے، یہی انسانی نجات کا اٹل اصول ہے
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا پاکستانی ریاست اس تاریخی منطق سے ماورا ہے؟ کیا اس کے پاس کوئی جادوئی چھڑ ی یا الہ دین کا چراغ ہے جو اسے تاریخ کے اس منطقی بہاؤ سے بچا سکے؟ کیا وہ بلوچ قوم کی مزاحمت، اس کی قربانیوں، اور آزادی کے اس تاریخی جدوجہد کا سامنا کر سکتی ہے جو ہر دور میں کسی نہ کسی روپ میں ابھرتا رہا ہے؟ نہیں، بالکل نہیں۔ کیونکہ تاریخ ایک ایسی ندی ہے جو رُکتی نہیں، اور جو قوت بھی اس کے بہاؤ کو روکنے کی کوشش کرتی ہے، وہ خود اسی میں بہہ جاتی ہے۔
اب سوال یہ نہیں رہا کہ پاکستانی ریاست کب ٹوٹے گی، سوال صرف یہ رہ گیا ہے کہ کب وہ حقیقت کو تسلیم کرے گی کہ وہ ایک غیر فطری ساخت ہے، جو تاریخ کی منطق سے ماورا نہیں ہو سکتی۔ ریاستیں اگر سرزمین، قوم، تاریخ اور شعور سے جنم لیں، تو ان کی عمر تمدنوں جتنی لمبی ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر وہ بندوق کی گولی، سامراجی مفاد، یا نوآبادیاتی فریب کی کوکھ سے پیدا ہوں، تو ان کا انجام قبرستانِ سلطنتوں میں دفن ہونا لکھا جا چکا ہوتا ہے۔ پاکستان بھی انہی غیر فطری تخلیقات میں سے ایک ہے، جو ایک نظریے، ایک خوف، اور ایک عسکری انجینئرنگ کے بل پر وجود میں آیا، نہ کہ کسی قوم، ثقافت یا اجتماعی ارادے کے اظہار کے طور پر۔کیا اسے یہ زعم ہے کہ وہ تاریخ کے دھارے کو موڑ سکتی ہے؟ کیا وہ یہ سمجھتی ہے کہ اس کے پاس کوئی جادوئی طاقت ہے جو اسے اس انجام سے بچا لے گی جو عثمانی خلافت، برٹش ایمپائر، سویت یونین، اور دیگر استعماری قوتوں کا مقدر بن چکا ؟ اگر ایسا ہے، تو یہ محض خود فریبی ہے —ایک ایسی فریب خوردہ خود اعتمادی جو طاقت کے غرور سے پیدا ہوتی ہے، اور تاریخ کے ہر صفحے نے اسے پاش پاش کر کے رکھ دیا ہے۔
بلوچ قوم کی مزاحمت ہزاروں سال کی اس زمین کی روح کا تسلسل ہے جسے تاریخ نے ہمیشہ اپنی آزادی کی قیمت پر پہچانا ہے۔ یہاں جبری گمشدگیاں، اجتماعی قبریں، مسخ شدہ لاشیں، اور میڈیا کے پردے اس تحریک کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں، تو وہ درحقیقت ایک ایسے آتش فشاں کو ڈھانپنے کی کوشش کرتے ہیں جو وقت آنے پر ہر زنجیر کو پگھلا دیتا ہے۔ بلوچ مزاحمت متشددانہ عملکا نام نہیں، بلکہ یہ ایک وجودی و فکری مزاحمتی تحریک ہے، جو اس نام نہاد ریاستی ڈھانچے کو ایک دھوکہ سمجھتی ہے
پاکستان، اپنی تمام تر عسکری طاقت، مذہبی پراپیگنڈے، اور نوآبادیاتی ورثے کے ساتھ، دراصل تاریخ کے دھارے کے خلاف ایک بند
باندھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن تاریخ ندی کی مانند ہے —یہ اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو یا تو بہا لے جاتی ہے یا اس کے گرد سے راستہ نکال لیتی ہے۔ اور جو قوت بھی اس کے بہاؤ کو روکنے کی جسارت کرتی ہے، وہ آخرکار تاریخ کی بے رحم موجوں کی زد میں آ کر فنا ہو جاتی ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ریاستیں صرف فوج، قانون اور آئین سے نہیں چلتیں؛ بلکہ وہ شعور، رضا، اور فطری ہم آہنگی سے جنم لیتی ہیں۔ پاکستان چونکہ بلوچ، پشتون، سندھی، بلتی، گلگتی، کشمیری اقوام کی فطری آزادیوں پر قابض، اس لیے وہ ایک غیر فطری و متصادم وجود ہے۔ اور کوئی بھی ریاست جو انسان کی آزادی اور قوموں کی خودمختاری کے اصول سے بغاوت کرے، وہ خود تاریخ کی مزاحمت کا شکار ہو جاتی ہے۔
سو یہ بات واضح ہے یہ تاریخ کے اٹل قوانین کا اظہار ہے۔ پاکستانی ریاست چاہے کتنی ہی سازشیں کر لے، کتنی ہی نسل کش پالیسیاں اپنائے، کتنی ہی جغرافیائی چالاکیاں کرے —وہ اس انجام سے نہیں بچ سکتی جو ہر ظالم، استحصالی اور غیر فطری ریاست کا مقدر ہوتا ہے۔
اس میں کوئی ابہام نہیں، اور نہ ہی کوئی فکری تذبذب باقی رہ جاتا ہے جب ہم پاکستانی ریاست کی بنیاد کے اُس ناپائدار فکری سانچے کا تجزیہ کرتے ہیں جسے "دو قومی نظریہ” کے نام سے موسوم کیا گیا۔ یہ نظریہ جسے نوآبادیاتی تناظر میں تخلیق کیا گیا تاکہ آزاد اقوام کو مذہب کے آئینے میں گم کر کے ان کی زمین، ثقافت، زبان، تاریخ، اور شعور پر قابض رہا جائے۔
اس نام نہاد دو قومی نظریے نے مذہب کو قومیت بنا کر پیش کیا، حالانکہ تاریخِ انسانی کی سب سے مستند گواہی یہی ہے کہ قومیں زمین، زبان، ثقافت، تاریخ، اور اجتماعی شعور سے بنتی ہیں، نہ کہ محض عقیدے سے۔ مذہب ایک روحانی و شخصی عمل ہے، نہ کہ کوئی جغرافیائی یا قومی اکائی۔ مگر اسی مذہب کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے، سامراجی قوتوں نے ہندوستان کو تقسیم کرکے ایسی ریاست کی بنیاد رکھی جو فطرت، منطق اور انسانی اجتماعیت کی تمام اصولوں کی نفی تھی۔
پاکستان کا وجود دراصل ایک عسکری مذہبی بیانیے کا عملی اظہار تھا، جس میں ریاستی وحدت کو مذہبی یکسانیت کے تصور سے جوڑا گیا، اور یوں مختلف قوموں —خصوصاً بلوچ، پشتون، سندھی اور بنگالی اقوام—کو ان کی تاریخی شناخت، جغرافیائی حق، اور فکری آزادی سے محروم کرنے کی منظم کوشش کی گئی۔ ریاستی نظریہ سازوں نے مذہب کو ایک ایسا نقاب بنایا جس کے پیچھے قومی جبر، فوجی تسلط، اور معاشی استحصال کی بھیانک حقیقت چھپی ہوئی تھی۔
دو قومی نظریہ، درحقیقت ایک مغالطہ ہے، اس نظریے کے ذریعے ایک جھوٹ گھڑا گیا: کہ ایک عقیدہ ایک قوم ہوتا ہے۔ یہ وہی مغالطہ ہے جس نے فلسطین میں صہیونیت کو جنم دیا، جس نے یورپ میں فاشزم کی راہ ہموار کی، اور جس نے مشرقِ وسطیٰ میں مذہبی بنیادوں پر مصنوعی ریاستیں قائم کیں تاکہ حقیقی قوموں کی آزادی کو دبایا جا سکے۔
آج، جب بلوچ قوم اس جبری ریاستی ڈھانچے کے خلاف اپنی مزاحمتی تاریخ کو از سر نو لکھ رہی ہے، تو وہ دراصل اس فکری دھوکہ دہی کو بھی رد کر رہی ہے جس نے اس ریاست کے وجود کو ممکن بنایا۔ بلوچ مزاحمت صرف جغرافیائی آزادی کی جنگ نہیں، بلکہ یہ ایک فکری و نظریاتی جنگ ہے —ایسی کاز جو اس سوال کے ساتھ منعکس ہے کہ کیا کوئی ریاست اس بنیاد پر قائم رہ سکتی ہے جو انسانی فطرت، قوموں کی حقیقت، اور تاریخ کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہو؟
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی ریاستی شناخت، جو دو قومی نظریے اور عسکری طاقت پر قائم ہے، آج ایک فکری بحران، سیاسی انحطاط، اور اخلاقی زوال کا شکار ہے۔ اس کے ادارے، اس کی آئینی ساخت، اور اس کی مذہبی و عسکری بیانیے کی دیواریں دھیرے دھیرے ٹوٹ رہی ہیں، کیونکہ ان کی بنیاد ہی جھوٹ، اور جبر پر رکھی گئی تھی۔
بلوچ قوم کا انکار اس جھوٹ کا انکار ہے۔ اور یہ انکار غیر منطقی نہیں، بلکہ یہ ایک باشعور، منظم، اورفکری و نظریاتی انکار ہے —ایسی نظریہ جو انسان کو مذہب کی آڑ میں غلام بنانے کے ہر فریب کو رد کرتی ہے، اور اعلان کرتی ہے کہ "ہم قوم ہیں، اور ہماری شناخت ہماری سرزمین، ہماری زبان، اور ہماری تاریخ سے جنم لیتی ہے، نہ کہ کسی مذہبی نظریاتی اساطیر سے۔”اور جب تک یہ سچ بولا جاتا رہے گا، جبر کی ہر دیوار، مذہب کی ہر سیاسی تعبیر، اور ریاست کی ہر مصنوعی یکجہتی تاریخ کے سامنے بے نقاب ہوتی رہے گی۔
تاریخ کے سینے پر ثبت وہ نظریہ جو انسان کو محض ایک مطیع مخلوق، ایک محکوم وجود، یا ریاستی ڈھانچے کے پرزے کے طور پر دیکھنے کی کوشش کرتا ہے، وقت کے بے رحم تھپیڑوں سے بارہا شکست کھا چکا ہے۔ یہ وہی تصور ہے جو ہر سلطنت، ہر سامراج اور ہر جبر کی بنیاد رہا ہے —کہ انسان اپنی تقدیر خود نہیں لکھ سکتا، کہ وہ طاقت، مذہب، یا ریاست کے آگے سر جھکانے پر مجبور ہے۔ مگر تاریخ کی گواہی اس کے بالکل برعکس ہے، اور آج بلوچ سرزمین پر وہی تاریخ ایک نئی زبان، نئے لہجے اور نئی توانائی کے ساتھ دوبارہ لکھی جا رہی ہے۔
یہ محض ایک عام تحریک نہیں، بلکہ یہ نیشنلزم کی ستون پر کھڑی ایک وجودی انکار ہے اس فلسفے کا جو انسان سے اس کی آزادی، خودی، اور تخلیقی شعور چھیننا چاہتا ہے۔ بلوچ مزاحمت کی بنیاد علاقائی جذباتیت پر نہیں، بلکہ ایک ایسے شعور پر ہے جو تاریخ، فلسفہ اور فطرت کے اصولوں سے جڑا ہوا ہے۔ یہ مزاحمت بندوق وسیاست کے ہم رکاب وہ آگہی ہے جو تاریخ کے ہر موڑ پر غلامی کے فریب کو چیر کر نکلتی ہے۔ یہ وہ شعور ہے جو جانتا ہے کہ نجات آسمان سے نازل نہیں ہوتی، بلکہ اسے زمین پر انسان خود اپنے لہو سے پیدا کرتا ہے۔
بلوچ مزاحمت کا فلسفہ انسانی آزادی کے اس اصول پر قائم ہے جو یہ کہتا ہے کہ انسان محض تاریخ کا تماشائی نہیں، بلکہ وہ اس کا خالق ہے۔ وہ اپنے وجود کا محافظ، اپنے خوابوں کا معمار، اور اپنی نجات کا ذمہ دار ہے۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جو غلامی کے فریب اور آزادی کے شعور کے درمیان موجود ہے: غلامی انسان کو تقدیر کا اسیر بناتی ہے، اور آزادی اسے اپنی تقدیر کا خالق۔
یہی مزاحمت قربانی کو نجات سے جوڑتی ہے۔ کیونکہ آزادی کوئی تحفہ نہیں، بلکہ وہ ایک مسلسل جدوجہد، ایک کرب، ایک شعوری بیداری اور ایک فکری ارتقائی عمل کا نام ہے۔ بلوچ شہداء کی قبریں محض مٹی کے ڈھیر نہیں بلکہ وہ تاریخ کے ان مکتبوں کی مانند ہیں جہاں ہر پتھر پر آزادی کا فلسفہ کندہ ہے۔ ان قبروں سے اٹھنے والی خاموش صدائیں اس عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں جو ابھی تک ریاستی مفادات کے شور میں حق و آزادی کی پکار کو سننے سے قاصر ہے۔
بلوچ مزاحمت وہ تاریخی کڑی ہے جو انسان کے اس ابدی سوال سے جڑی ہوئی ہے: "کیا میں آزاد پیدا ہوا ہوں یا غلام؟” اور یہ تحریک اس سوال کا عملی، جرات مندانہ اور انقلابی جواب ہے۔ یہ جواب شعور، قربانی، اور غیر متزلزل یقین سے دیا جا رہا ہے۔ جب ایک قوم اپنی
آزادی کو زندگی کا مقصد، اپنی قربانی کو تاریخ کی کرامت، اور اپنے شعور کو نجات کا راستہ بنا لے، تو کوئی طاقت، کوئی ریاست، اور کوئی سامراج اسے جھکا نہیں سکتا۔ ( جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بی وائی سی قیادت کی جیل میں بھوک ہڑتال جاری

جمعہ اپریل 25 , 2025
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بی وائی سی کی منتظم ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، مرکزی رہنما شاجی بلوچ، بیبرگ بلوچ، اور کارکنان گلزادی بلوچ و بیبو بلوچ نے اپنی حراستی کوٹھڑیوں میں بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔ انہوں نے کہا ہے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ