
بلوچ یکجہتی کمیٹی کےکارکن بیبو بلوچ کو ریاستی فورسز نے ہدہ جیل سے شدید تشدد کے بعد پشین جیل منتقل کر دیا ہے۔
بیبو بلوچ کے بھائی بلخ شیر نے اپنے ویڈیو پیغام میں تصدیق کی ہے کہ بیبو کو پشین جیل منتقل کیا گیا ہے، جہاں اُن کے جیل سیل اور واش روم میں نگرانی کے لیے کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔ بیبو نے جیل کے اندر بھوک ہڑتال کا آغاز بھی کر دیا ہے۔
بلخ شیر بلوچ کے مطابق جب اہلخانہ نے پشین جیل میں بیبو سے ملاقات کی تو انہوں نے تصدیق کی کہ اُن پر سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے تشدد کیا اور انہیں سمنگلی تھانے لے جایا گیا، جہاں مرد پولیس اہلکاروں نے ان پر جسمانی تشدد کیا۔
جب اہلِ خانہ بیبو بلوچ سے ملاقات کے لیے ہدہ جیل پہنچے تو خاتون پولیس اہلکاروں نے ان کی کزن اور پھوپھی کو گرفتار کرنے کی دھمکیاں دیں۔
بیبو بلوچ کے بھائی کا کہنا ہے کہ پشین جیل میں تین گھنٹے انتظار کے بعد ملاقات کی اجازت دی گئی، جہاں بیبو بلوچ نے خود پر ہونے والے تشدد اور سخت نگرانی کی تصدیق کی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور گلزادی بلوچ کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ رات سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے ہدہ جیل کے اندر بیبو بلوچ بلوچ کو اغوا کرکے نامعلوم مقام پر لے گئے تھے جبکہ ڈاکٹر ماہ رنگ اور گلزاری پر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بیبو بلوچ کو 22 مارچ 2025 کو کوئٹہ میں ایک پُرامن احتجاج کے دوران بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دیگر کارکنوں کے ہمراہ گرفتار کیا گیا۔ ان پر تھری ایم پی او کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، جو پاکستان میں سیاسی کارکنوں کو بغیر کسی باقاعدہ ٹرائل کے طویل عرصے تک حراست میں رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔