گلزادی بلوچ کا جیل سے پیغام، تاریخی و انقلابی مکتوب

تحریر: رامین بلوچ (پہلا حصہ)
زرمبش مضمون

نوآبادیاتی نظام صرف بندوقوں، قلعوں اور چھاؤنیوں سے قائم نہیں ہوتا، بلکہ اس کا سب سے کاری وار شعور کی تشکیل میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہ نظام انسان کو اس کی فطری آزادی، اجتماعی خودی اور تاریخی شناخت سے محروم کرنے کے لیے ایسے سماجی و فکری جال بچھاتا ہے جو بظاہر مذہب، روایت، قبائلی ساخت یا ریاستی مفاد کے نام پر قبول کر لیے جاتے ہیں۔ بلوچ سماج بھی اس نوآبادیاتی فریب کا شکار رہا ہے، جہاں استعمار نے ایک طرف سامراجی ریاست کی صورت میں قبضہ مسلط کیا، تو دوسری طرف مقامی اجارہ دار قوتوں، قبائلی سرداریوں اور مذہبی ملائیت کو ایسے ہتھیاروں میں بدل دیا جو نہ صرف قوم کے شعور پر حملہ آور ہوئے بلکہ خاص طور پر بلوچ خواتین کو خاموشی، محکومی اور غیرسیاسی حیثیت میں محدود کرنے کی سازش کا حصہ بنے۔
ملائیت، جسے سامراج نے ایک فکری آلہ کارکے طور پر تراشا، عورت کو محض شرم و حیا کی علامت، گھر کی زینت اور مرد کی غیرت کا تمغہ بنانے میں مصروف رہا۔ اس نے عورت کی فطری آزادی، انقلابی کردار، علمی بلندی اور سیاسی مقام کو مذہبی فتووں اور ثقافتی قیود کے ذریعے پامال کیا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سامراج اور اس کی فکری کوکھ سے جنم لینے والے ملاؤں نے ایک بااختیار بلوچ عورت کو "صنفِ نازک” کا عنوان دے کر اس کے انقلابی وجود کو "غیر سیاسی” قرار دیا — اور یہ سب نوآبادیاتی مفادات کی خاطر، تاکہ آدھی آبادی کو شعور کی دوڑ سے الگ رکھا جا سکے۔
مگر تاریخ خاموش نہیں رہتی۔ جسے غیر سیاسی سمجھا گیا، وہ ہر انقلاب کی اولین آگاہی بنی۔ بلوچ عورت، جسے کبھی پردے کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی گئی، وہ نوآبادیاتی بربریت میں سینہ سپر ہو کر سامنے آئی۔ ہزاروں بلوچ خواتین، جن کے نام تاریخ کے صفحات پر کندہ ہو چکے ہیں، آج اس جدوجہد کا ایک ایسا مستقل حوالہ ہیں جسے نہ مٹایا جا سکتا ہے، نہ فراموش کیا جا سکتا ہے۔
ریاست جب یہ دعویٰ کرتی ہے کہ بلوچ مزاحمتی قوتیں عورت کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہیں، تو وہ دراصل ایک ایسے نوآبادیاتی، پدرشاہی، اور نسل پرستانہ بیانیے کو فروغ دے رہی ہوتی ہے جو صدیوں پر محیط سامراجی غلبے کا فکری تسلسل ہے۔ یہ بیانیہ صرف جھوٹ نہیں، یہ ایک خطرناک نظریاتی ہتھیار ہے، جس کا مقصد نہ صرف مزاحمتی قوتوں کو بدنام کرنا ہے بلکہ بلوچ عورت کے وجود اور اس کی مزاحمتی شرکت کو ایک مظلوم، کمزور، اور "استعمال ہونے والی شے ” میں تبدیل کرنا ہے۔
یہ وہی ذہنیت ہے جو سامراجی تعلیمی نصاب میں عورت کو صرف مرد کی مددگار، گھر کی زینت، یا قوم کی "عزت” بنا کر پیش کرتی ہے — ایک ایسی عزت جسے وہی قوتیں سب سے پہلے پامال کرتی ہیں جب ان کے عسکری مفادات خطرے میں ہوں۔ بلوچ عورت، ان کی نگاہ میں، یا تو ایک لاچار ماں ہے جو بیٹے کی جدائی میں نوحہ پڑھتی ہے، یا پھر ایک "لاعلم” شے جو کسی کے اکسانے پر احتجاج کرتی ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بلوچ عورت محض احتجاج نہیں کرتی، وہ علم، قربانی، اور شعور کے ساتھ جدوجہد میں شریک ہے۔ وہ صرف ماتم نہیں کرتی، وہ
مزاحمت کا استعارہ ہے۔
بلوچ تحریکِ آزادی ایک ایسی انقلابی جدوجہد ہے جو انسان کی فطری آزادی، شعور، اور قومی آزادی کے اصول پر استوار ہے۔ اس تحریک کے لیے عورت اور مرد کی تفریق محض کالونائزر اور اس کے کاسہ لیس مزہبی پیشواہوں کی بقا کی علامتیں ہیں، جنہیں توڑ کر ہم اپنی قومی، اجتماعی اور انفرادی آزادی کا راستہ کھولتے ہیں۔ یہاں صنف نہیں، کردار کی گنتی ہوتی ہے؛ یہاں حیاتیاتی فرق نہیں، نظریاتی وابستگی دیکھی جاتی ہے۔
یہ تحریک ایک فیصلہ کن معرکہ ہے، جہاں مرد اور عورت دونوں، اپنی تمام تر فکری، روحانی، جسمانی اور تاریخی توانائیوں کے ساتھ شریک ہیں۔ اس تحریک میں بلوچ عورت اپنے بھائی کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہے، نہ کسی کی ڈھال ہے، نہ پیچھے، نہ سایہ — وہ محاذ ہے، وہ علمبردار ہے، وہ فیصلہ کن لڑائی کی شریکِ سفر ہے۔
یہ نوآبادیاتی نظام دراصل بلوچ عورت سے خوفزدہ ہے — اس کی خودمختاری سے، اس کے شعور سے، اس کے انکار سے۔ وہ عورت جو بندوق اٹھاتی ہے، وہ ریاست کے بیانیے کو زخمی کرتی ہے؛ وہ عورت جو سچ بولتی ہے، وہ سامراج کی بنیادیں ہلا دیتی ہے؛ اور وہ عورت جو آزادی مانگتی ہے، وہ تاریخ کے ہر استعماری صفحے پر انمٹ سوال بن کر ابھرتی ہے۔
بلوچ قوم کی جدوجہد میں عورت محض ایک کردار نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے — وہ نظریہ جو قبضہ کے ہر تصور کو چیلنج کرتا ہے، اور آزادی کے ہر امکان کو حقیقت میں بدلنے کی جستجو رکھتا ہے۔
اور ہم، اس معرکے کے سپاہی، چاہے مرد ہوں یا عورت، ایک ایسے لمحے میں زندہ ہیں جہاں پیچھے ہٹنے کا مطلب فنا ہے، اور آگے بڑھنے کا مطلب نجات۔ ہمارے پاس اب صرف ایک ہی راستہ ہے — آزادی۔ اور یہ آزادی تبھی ممکن ہے جب ہم اپنی عورت کو ایک وجود، ایک انقلابی، ایک فکری رہنما کے طور پر تسلیم کریں — نہ کہ کسی کی ڈھال، نہ کسی کی عزت کا مجسمہ، بلکہ قوم کی شریکِ حیات، شریکِ فکر، اور شریکِ جنگ۔
عورت کی آزادی محض ایک نعرہ نہیں، یہ انقلاب کی روح ہے۔ وہ انقلاب جو انسان کو انسان بناتا ہے، جو محکوم کو حاکم، اور غلام کو آزاد کرتا ہے، وہ کبھی بھی مکمل نہیں ہو سکتا جب تک عورت آزاد نہ ہو۔ عورت محض مظلوم نہیں ہے، وہ مزاحمت کا نقیب ہے۔ وہ صرف ایک صنف نہیں، وہ تاریخ کا وہ رستہ ہے جہاں زندگی، جدوجہد اور تخلیق اکٹھے سفر کرتے ہیں۔
بلوچ نیشنلزم کے تناظر میں عورت کی آزادی کوئی خیرات نہیں ہے جو مرد کے ہاتھ سے ملے، نہ ہی یہ وہ اجرت ہے جو اسے وفاداری کے بدلے میں دی جائے۔ یہ اس کی جبلّت میں ہے، اس کے وجود کی قیمت ہے، اس کی سانسوں کا حق ہے۔ جس طرح مزدور کو اس کی محنت کا صلہ بغیر کسی ترحم کے ملنا چاہیے، اسی طرح عورت کی آزادی بھی کسی رعایت کی محتاج نہیں۔
انقلاب، جو پرانے نظام کو توڑتا ہے، اگر وہ عورت کو بھی اسی پرانی زنجیر میں باندھے رکھے، تو وہ خود ایک دھوکہ ہے۔ وہ انقلاب، جو صرف مرد کو طاقت دے، وہ دراصل آدھی دنیا کو پھر سے غلام بناتا ہے۔ حقیقی انقلاب وہ ہے جو مرد و زن دونوں کو برابری کی بنیاد پر معاشرتی، سیاسی
اور ثقافتی طاقت دیتا ہے۔
عورت آدھے آسمان کی مالک ہے، اور جب ہم آسمان کو دو نیم کرتے ہیں، تو ہمیں یہ ماننا پڑتا ہے کہ وہ نصف جو عورت کے ہاتھ میں ہے، اسی میں زندگی کا افق چھپا ہے۔ وہی نصف، جو نسلیں جنتا ہے، وہی نصف، جو مزاحمت کی کوکھ سے نئی دنیا کو جنم دیتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی انقلابی تصور مکمل نہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہر بڑی مزاحمت میں عورت صفِ اول میں رہی ہے۔ چاہے وہ فرانسیسی انقلاب کی گلیاں ہوں، نکاراگوا کی پہاڑیاں، ویتنام کے جنگلات، یا بلوچستان کے کوہسار — عورت نے ہمیشہ بندوق اور قلم دونوں اٹھائے ہیں۔ اس نے بچوں کو دودھ بھی دیا، اور آزادی کا نعرہ بھی بلند کیا۔ وہ میدانِ جنگ میں بھی شریک رہی اور زندانوں کی دیواریں بھی سہتی رہی۔
آزادی کی تحریکوں میں اگر عورت صرف حاشیے پر رکھی گئی، تو وہ تحریکیں یا تو بکھر گئیں، یا محض مردانہ اقتدار کی نئی شکل بن کر رہ گئیں۔ اسی لیے
جب ہم عورت کی آزادی کی بات کرتے ہیں، تو دراصل ہم انسان کی مکمل آزادی کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم اس سچ کی بات کرتے ہیں جو ہر جبر کے خلاف بغاوت کا اعلامیہ ہے۔
آج اگر ہم آزادی کا خواہاں ہیں، تو ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ عورت کی آزادی نہ صرف اس خواب کی تعبیر ہے، بلکہ اس کی ضمانت بھی۔ ایک ایسی دنیا، جو عورت کو فقط "ماں "، "بیوی”، یا "بیٹی” کے رشتوں میں قید کرے، وہ کبھی آزاد انسانوں کی دنیا نہیں بن سکتی۔ عورت انسان ہے — مکمل، خودمختار، اور آزاد۔ اس کی آزادی کا مطلب انسانیت کی آزادی ہے۔
، عورت کو آزادی دینا ایک احسان نہیں، بلکہ قومی فرض ہے۔ عورت کو برابر کا شریک بنانا کوئی رعایت نہیں، بلکہ بقاء کا تقاضا ہے۔ عورت کو سننا، اس کے ساتھ چلنا، اور اس کی قیادت تسلیم کرنا، انقلاب کی کامیابی کی ناگزیر شرط ہے۔جب آدھا آسمان روشن ہوگا، تب ہی سارا آسمان چمکے گا۔بلوچ سماج کی تاریخ نہ کبھی پدرسری کی چھاؤں میں رہی ہے اور نہ ہی مردانہ بالادستی کی کسی ساخت کا حصہ بنی ہے۔ بلوچ تہذیب، اپنی فطرت میں، آزاد، اور برابری پر مبنی رہی ہے، جہاں عورت صرف معاشرتی اکائی نہیں بلکہ مزاحمت کی ستون رہی ہے۔ وہ دسترخوان کی کفیل بھی رہی ہے اور جنگ کے میدان کی رفیق بھی۔ وہ نہ صرف ماں، بہن یا بیٹی ہے بلکہ جدوجہد کی صفِ اول میں کھڑی ایک انقلابی روح ہے
آج ہم جس بیانیے کو تعمیر کرنا چاہتے ہیں، وہ بیانیہ محض ایک فرد کا نوحہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی شعور کی تجدید ہے۔ گلزادی بلوچ — ایک نام، ایک وجود، ایک خط — جو آہنی زنجیروں میں بندھے ہاتھوں سے لکھا گیا، مگر اس کی روشنائی زخموں سے نہیں، شعور سے کشید کی گئی۔ وہ خط صرف الفاظ نہیں، ایک پوری قوم کی مظلومیت، استقامت اور سوال بن کر ابھرتا ہے۔
ریاستی اداروں نے جس بدن کو اذیتوں سے توڑنے کی کوشش کی، وہ بدن جسمانی طور پر کمزور ہو سکتا ہے، مگر وہ روح، وہ ارادہ، وہ فکری پختگی جو گلزادی میں تھی، وہ آج ریاست کے سارے بیانیوں کو شکست دیتی ہے۔ یہ وہی عورت ہے جسے "ڈھال” کہہ کر کمزور دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے، اور جسے "استعمال” ہونے والا مظلوم بنا کر اس کی شرکت کو مشکوک بنایا جاتا ہے۔
لیکن گلزادی کا وجود خود اس جھوٹ کا انکار ہے۔ وہ صرف قیدی نہیں، وہ مزاحمت کا چراغ ہے؛ وہ محض اذیت کا نشانہ نہیں، وہ شعور کی آگ ہے جو زندان کے اندھیروں میں بھی جلتی ہے۔ اس کی تحریر صرف ایک مکتوب نہیں، یہ بلوچ عورت کے شعور کی دستاویز ہے — ایک ایسی عورت جو جانتی ہے کہ غلامی کے خلاف جنگ میں صرف مردوں کا خون کافی نہیں، اور نہ ہی عورت کی خاموشی جائز ہے۔
گلزادی بلوچ ہزاروں ان بہنوں میں سے ایک ہے جو نوآبادیاتی جبر کے خلاف فکری مورچوں پر ڈٹی ہوئی ہیں۔ وہ ثابت کرتی ہے کہ بلوچ عورت صرف احتجاج کی علامت نہیں، وہ نظریاتی صف بندی کی معمار ہے؛ وہ جبر کے خلاف ایک زندہ بیانیہ ہے جو نہ بکتی ہے، نہ جھکتی ہے اور نہ کبھی پیچھے ہٹتی ہے۔
اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں ریاست کی پدرسری سوچ شکست کھاتی ہے۔ وہ عورت کو یا تو بے زبان مظلوم دیکھنا چاہتی ہے یا بے روح علامت۔ مگر گلزادی، اور اس جیسی بیٹیاں، ان دونوں تصورات کو پاؤں تلے روند دیتی ہیں۔ وہ بلوچ عورت کو ایک زندہ، شعوری، انقلابی وجود کے طور پر پیش کرتی ہیں — جو صرف زندہ رہنے کے لیے نہیں، بلکہ آزاد جینے کے لیے لڑتی ہے۔
( جاری ہے)

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

جیل حکام کے انکار پر زرغونہ ترین کو بلایا گیا، جس نے بیبو اور ماہرنگ پر بے رحمانہ تشدد کیا، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

جمعرات اپریل 24 , 2025
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ریاست اور بلوچ کے درمیان واحد رشتہ اگر کوئی ہے تو وہ صرف اور صرف ظالم اور مظلوم کا ہے اور ریاست نے خود کو ہمیشہ ایک بے رحم ظالم کے طور پر ثابت کیا […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ