دس نسلوں کی دھمکی، اور جرنیلی غرور!

تحریر: رامین بلوچ (دوسرا حصہ)
زرمبش مضمون

بلوچستان صرف وسائل کا خزانہ نہیں، بلکہ شعور کا سرچشمہ بھی ہے۔ یہ ہزاروں فکری و انقلابی رہنماؤں کی جنم گاہ ہے۔ یہاں کا ہر بچہ اپنی زبان، شناخت، تاریخ اور مزاحمت سے واقف ہے۔ جس قوم کی ماؤں کی لوریاں بھی مزاحمت سے لبریز ہوں، اسے "جھومر” کہنا دراصل اس کی شعوری تذلیل ہے۔
جب جھومر کی جگہ زنجیر لے لے، تو خوبصورتی کا فریب ٹوٹ جاتا ہے۔ بلوچستان کی زمین وہ جغرافیہ ہے جہاں جبر کی ہر زنجیر آخرکار ٹوٹ کر رہتی ہے۔

"بلوچستان پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہے، تم 1500 بندے کہو گے، اسے لے جاؤ گے؟ تمہاری دس نسلیں بھی نہیں لے جا سکتیں!”
یہ جملہ ایک ایسی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جو سامراجی خود فریبی، ریاستی غرور اور نوآبادیاتی نفسیات سے لبریز ہے۔ یہ لہجہ نہ صرف بلوچ قومی شناخت، ارادے اور تاریخی مزاحمت کی نفی کرتا ہے بلکہ تاریخ، فلسفے اور انسانی آزادی کے اصولوں کی بھی کھلی توہین ہے۔

یہ فقرہ سامراجی ذہنیت، نوآبادیاتی لغت اور عسکری غرور کی وہ علامت ہے جس کے ذریعے ریاستیں مقبوضہ اقوام کے شعور کو کچلنے، ان کی مزاحمت کو غیر حقیقی ظاہر کرنے، اور آزادی کی خواہش کو جرم بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

نوآبادیاتی ریاستیں زبان و بیان کے ذریعے محکوم اقوام کی مزاحمت کو مجرمانہ رنگ دیتی ہیں۔ "دہشت گرد”، "غدار”، "انتہا پسند”، اور "علیحدگی پسند” جیسے الفاظ ان کے وہ ہتھیار ہیں جن کے ذریعے قومی آزادی کی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جیسا کہ ایڈورڈ سعید اپنی کتاب Orientalism میں لکھتے ہیں:
"سامراج اپنے غلبے کو فکری جواز دینے کے لیے غیر مغربی اقوام کو ‘کمتر’ اور ‘غیر مہذب’ ظاہر کرتا ہے، تاکہ ان پر تسلط کو ‘تہذیب’ کا نام دیا جا سکے۔”
اسی طرح پاکستانی نوآبادیاتی لغت میں بلوچ مزاحمت کو "ریاست دشمنی” کہا جاتا ہے، حالانکہ یہ درحقیقت ایک آزادی پسند قومی تحریک ہے۔

جب کوئی نوآبادیاتی طاقت کسی قوم کی زمین، شناخت، زبان، ثقافت، وسائل اور آزادی پر قبضہ کرتی ہے تو وہ محض سیاسی یا معاشی بالادستی حاصل نہیں کرتی، بلکہ اس قوم کے وجود کو مٹانے کی کوشش کرتی ہے۔
وہ تاریخ کو مسخ کرتی ہے، زبان کو ختم کرتی ہے، اور مزاحمت کو جرم قرار دیتی ہے۔ اس ظلم کی سب سے سفاک شکل وہ ہوتی ہے جب محکوم قوم کی مزاحمت کو بندوق کے ذریعے خاموش کر دیا جاتا ہے۔ ایسے میں طاقت کی قانونی حیثیت، اس کے قوانین، اور اس کا دعویٰ برتری پر صرف ایک فریب بن کر رہ جاتا ہے۔

ہنّا آرنٹ، جو ظلم، آمریت اور Totalitarianism کے خلاف فکری مزاحمت کی ایک توانا آواز تھیں، کہتی ہیں:
"تشدد، جبر، اور نوآبادیاتی طاقت وقتی طور پر خاموشی مسلط کر سکتے ہیں، مگر یہ کبھی بھی پائیدار طاقت یا اخلاقی برتری پیدا نہیں کر سکتے۔”
آرنٹ کے مطابق، طاقت کا اصل سرچشمہ عوام کی رضامندی اور اجتماعی شعور ہے، نہ کہ خوف یا بندوق۔ چنانچہ جب کوئی ریاست یا قوت عوامی رضامندی کے بجائے تشدد کے ذریعے اپنا تسلط برقرار رکھتی ہے تو وہ اپنی اخلاقی بنیاد کھو دیتی ہے اور خود کو تاریخ کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتی ہے۔

نوآبادیاتی نظام میں جبر صرف مادی سطح پر نہیں ہوتا، بلکہ فکری اور تہذیبی سطح پر بھی ہوتا ہے۔ فرانتس فینن نے اس جبر کو Cultural Alienation کا نام دیا اور کہا کہ جب کسی قوم کو مسلسل سیاسی غلامی، تعلیمی استعماری پالیسیوں، اور ریاستی جبر کے ذریعے اس کی زبان، تاریخ، ثقافت اور قومی تشخص سے محروم کیا جاتا ہے، تو وہ قوم رفتہ رفتہ اپنے تشخص سے دور ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے قومی ورثے کو بھلا کر غالب ثقافت کو اپنانے لگتی ہے—یہی ثقافتی بیگانگی ہے۔

اسی تناظر میں نوآبادیاتی طاقت کی سب سے بڑی شکست وہ لمحہ ہوتی ہے جب محکوم قوم اپنی ثقافت، اپنی زبان، اپنی مزاحمت، اور اپنی تاریخ کو دوبارہ دریافت کرتی ہے۔
جب غلامی کو تقدیر کے بجائے ایک قابلِ مزاحمت حقیقت تسلیم کیا جاتا ہے، تو نوآبادیاتی بندوق کمزور ہو جاتی ہے، اور محکوم کی خاموشی مزاحمتی عمل میں ڈھل جاتی ہے۔

کالونائزر جب اپنے وجود کو خطرے میں محسوس کرتا ہے، تو وہ تشدد، طاقت اور جبر کا سہارا لیتا ہے۔ اس کی تمام تر نام نہاد اخلاقیات، جو اس کے وجود کا جواز فراہم کرتی تھیں، بتدریج ایک کھوکھلا خول بن جاتی ہیں۔ وہ حقیقت سے مکالمہ نہیں کرتا بلکہ اسے مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔
یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب ریاست اخلاقی زوال کی راہ پر قدم رکھتی ہے—اور یہی وہ نکتہ آغاز ہوتا ہے، جہاں سے اس کا خود ساختہ جاہ و جلال مٹی میں ملنے لگتا ہے۔

طاقت، اپنی اصل میں، کبھی بھی سچائی کو جنم نہیں دے سکتی۔ وہ صرف وقتی خاموشی پیدا کر سکتی ہے۔
فرانتس فینن نے کہا تھا:
"تشدد وقتی تسکین تو دے سکتا ہے، لیکن وہ ایک نئے انسان کو جنم نہیں دے سکتا۔”
جب ریاست زمینی حقیقتوں، عوامی شعور اور انقلابی جدوجہد کو طاقت سے دبانے کی کوشش کرتی ہے، تو وہ دراصل حقیقت سے انکار کر رہی ہوتی ہے۔
لیکن فلسفہ کہتا ہے کہ حقیقت کا انکار، حقیقت کو باطل نہیں کرتا—بلکہ سچ کو جھٹلانا، جھٹلانے والے کی بصیرت پر سوالیہ نشان ثبت کرتا ہے۔

سقراط نے جب ایتھنز کی ریاستی طاقت کو للکارا، تو اسے زہر کا پیالہ تھما دیا گیا، لیکن زہر نے سقراط کو نہیں مارا، بلکہ ایتھنز کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا دیا۔
ایسے ہی، جب بھی ریاست قتل عام، اغوا، قید اور جبری گمشدگی جیسے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے، وہ وقتی طور پر لاشیں گرا سکتی ہے، مگر ان نظریات کو نہیں مار سکتی جو ان لاشوں کے اندر زندہ تھے، جو فضا میں گونجتے ہیں، جو شعور میں پروان چڑھ رہے ہوتے ہیں۔

فلسفہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر طاقت اپنی ضد کو بھی ساتھ لاتی ہے—جتنا زیادہ جبر، اتنی ہی زیادہ مزاحمت۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب کالونائزر کسی قوم کو غلام بنا کر اس کے خلاف طاقت کے بل پر میدان میں اترا، تو وہ جنگ ہار گیا۔
زمینی حقیقتیں، جو اجتماعی شعور، سیاسی جدوجہد اور تاریخی ارتقا میں پیوست ہوتی ہیں، نہ تو مسخ ہو سکتی ہیں، نہ فنا۔ وہ جتنی دبی جاتی ہیں، اتنی ہی شدت سے ابھرتی ہیں۔ ان کا تعلق اس اجتماعی لاشعور سے ہوتا ہے جسے طاقت کی زبان سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔

اسی تناظر میں ریاست کا تشدد اس کے انجام کی علامت بن جاتا ہے، نہ کہ اس کی کامیابی کی۔ جتنی زیادہ طاقت، اتنی ہی کمزوری کی شدت—کیونکہ جب کوئی طاقت اخلاقی جواز کھو دیتی ہے، تو اس کا باقی بچنا محض وقت کا کھیل ہوتا ہے۔
وہ اپنی قبر خود کھودتی ہے—ایک ایسی قبر جو اس کے مظالم کی گواہ اور محکوم کی استقامت کی علامت بن جاتی ہے۔

ریاستی تشدد ہمیشہ سے اس کی کمزوری اور جرم کی علامت رہا ہے۔ جب وہ نوآبادی پر بندوق تانتی ہے تو درحقیقت وہ اپنے غیر فطری وجود پر ضرب لگاتی ہے۔ وہ جتنی وحشی بنتی ہے، اتنا ہی اس کا اخلاقی اور ریاستی دیوالیہ پن واضح ہوتا ہے۔
یہ تاریخ کا سبق ہے: جو ریاست زمینی حقائق کو روندتی ہے، وہ بالآخر خود روندی جاتی ہے۔

پاکستانی ریاست کا حالیہ عسکری بیانیہ دراصل اس کی اخلاقی اور نفسیاتی شکست کا اظہار ہے۔
1971 میں بنگال کی آزادی پاکستانی ریاست کے تکبر پر مبنی بیانیے کی مکمل اور کھلی شکست تھی، جسے پنجابی ریاست نے "اسلامی اخوت” اور "قومی سالمیت” جیسے کھوکھلے نعروں میں ملفوف کر کے نافذ کرنے کی کوشش کی۔ بنگالی قوم پر جنگی جرائم کے تمام حربے آزمائے گئے۔ ان کی آزادی، ثقافت، زبان کو سلب کیا گیا، ان کی عورتوں کی عصمت دری کی گئی، اور انہیں مسلسل تذلیل و جبر کا نشانہ بنایا گیا۔ مگر جب ان کی شناخت مٹانے کی کوشش کی گئی، تو وہ شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں ایک آزادی کی تحریک کے تحت اٹھ کھڑے ہوئے، اور بالآخر عسکری طاقت کے غرور کو روندتے ہوئے ایک نئی ریاست، بنگلہ دیش قائم کر دی۔

ریاستی جبر کا وہی ڈھانچہ، وہی زبان، وہی دھمکیاں آج بلوچ قوم کے خلاف دہرائی جا رہی ہیں۔
جنرل عاصم منیر کی جانب سے دی جانے والی "انجام کی دھمکیاں” دراصل اسی پرانے شکست خوردہ بیانیے کی بازگشت ہیں، جو بنگال میں خاک چاٹ چکا ہے۔ یہ دھمکیاں نئی نہیں بلکہ ہر قابض اور زوال پذیر ریاست کی آخری چیخیں ہوتی ہیں۔
مگر تاریخ فراموش نہیں کرتی۔ آج بھی بنگال کے میوزیم میں پاکستانی فوج کی وہی پتلونیں محفوظ ہیں، جو اس "اسلامی فوج” کے نوے ہزار سپاہیوں نے ہتھیار ڈالنے کے وقت اتاری تھیں۔ یہ صرف شکست کی یادگار نہیں بلکہ اس غرور، جھوٹ اور جبر کی علامت ہیں جو خود کو "قومی سلامتی” کا محافظ سمجھتا تھا۔

آج بلوچ قوم کو اپنی سرزمین پر ریاستی جبر، جبری گمشدگی، اجتماعی قتل عام اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔
لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب ریاست گولی کی زبان بولتی ہے، تو وہ اپنی اخلاقی و سیاسی حیثیت کھو دیتی ہے۔
بنگالی قوم نے قربانیاں دے کر اپنی شناخت، زبان اور آزادی حاصل کی، اور وہ آزادی ایک قومی ریاست کی صورت میں مجسم ہوئی۔ بلوچ قوم کی جدوجہد بھی اسی فطری قومی آزادی کے اصول پر قائم ہے۔
پاکستانی ریاست جتنی بھی طاقت آزمائے، جتنے بھی دھمکی آمیز بیانات دے، وہ تاریخ کے اس سبق سے فرار حاصل نہیں کر سکتی، جو اس نے خود بنگال میں سیکھا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ تاریخ کا پہلا صفحہ بھی ریاست نے خود لکھا تھا، اور آخری صفحہ بھی وہی لکھ رہی ہے—مگر اب اپنے زوال کے عنوان کے ساتھ۔

اگر تاریخ کو ایک عدالت تصور کیا جائے تو اس کی سب سے اٹل اور ناقابلِ تردید شہادت یہ ہے کہ ظلم، استحصال اور جبر پر قائم کوئی بھی نظام ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رہتا۔
یہ تاریخ کا فطری میکانزم ہے کہ وہ طاقت کے توازن کو مظلوم کی طرف جھکانے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ اگرچہ اس کی رفتار سست ہو، مگر اس کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔
تاریخ خاموش نہیں ہوتی، وہ گونجی ہوئی صداؤں کی طرح پلٹ کر آتی ہے—اور جب آتی ہے، تو تخت الٹ دیتی ہے، تاج گرا دیتی ہے، اور وہ تاجدار، جو خود کو تقدیر کا خالق سمجھتے ہیں، ان کے محل مٹی میں دفن کر دیتی ہے۔

روم، وہ سلطنت جس نے اپنے قانون، فنِ تعمیر، فلسفے اور عسکری نظم سے دنیا کو مفلوج کر دیا تھا، آخرکار انسانی مزاحمت کے بوجھ تلے زمیں بوس ہو گئی۔
اس کے سینکڑوں سالہ اقتدار کا خواب اس لمحے چکنا چور ہوا، جب محکوم اقوام نے اپنی زنجیروں کو سوال میں بدل دیا۔
تاریخ نے یہ فیصلہ سنا دیا کہ تمدن وہ نہیں جو طاقت سے مسلط کیا جائے، بلکہ وہ ہے جو انسان کی روح سے جنم لے۔

برٹش ایمپائر، جو اپنی رعونت میں کہتا تھا "سورج کبھی غروب نہیں ہوتا”، اس وقت غروب ہو گیا جب غلام قوموں نے اپنی خودی کو پہچانا۔
جب ہندوستان، بلوچستان، افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور کیریبین کے مظلوم انسانوں نے اس نام نہاد مہذب سامراج کی چمکدار زنجیروں کو توڑ کر انقلابی آزادی کا نغمہ گایا،
تو وہ برطانوی پارلیمان، جسے تہذیب کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا، درحقیقت ایک سیاسی جبر کی لیبارٹری ثابت ہوئی، جہاں انسانی تقدیروں کو تجربات کی بھٹی میں جھونکا گیا۔
مگر فطرت کا قانون ہے—جو آزادی کو پامال کرے گا، وہ مٹایا جائے گا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

کراچی: نوجوان پر بی ایل ایف کا رکن ہونے کا الزام، جبری گمشدگی کے بعد منظر عام پر لایا گیا

بدھ اپریل 23 , 2025
پاکستان رینجرز (سندھ) اور سی ٹی ڈی نے 11 اپریل 2025 کو لیاری کے علاقے کلری سے گرفتار کیے گئے اختر ولد اکبر کی گرفتاری ظاہر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) سے منسلک ہے اور چائنیز شہریوں، صحافیوں اور حساس مقامات پر […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ