شہید کریم بلوچ: ایک نظریہ، ایک کردار، ایک تسلسل

تحریر: رامین بلوچ (آخری حصہ)
زرمبش مضمون

شہادت، کریم جان کے لیے فرار نہیں، آغاز تھی۔ شہید وہ نہیں جو موت سے بھاگتا ہے، بلکہ وہ ہے جو موت کو شکست دے کر امر ہو جاتا ہے۔ جن کی زندگی ظلم کے خلاف مدافعت بن جائے، ان کے لیے موت محض ایک عبوری لمحہ ہوتی ہے—ایک ایسا پل، جس سے وہ فرد سے فکری علامت میں ڈھل جاتے ہیں۔ ان کے لہو سے قوم کے شعور کو توانائی ملتی ہے، اور ان کی قربانی آنے والی نسلوں کے لیے چراغِ راہ بن جاتی ہے۔

وہ جانتے تھے کہ غلامی میں جینا ہی اصل موت ہے، اور مقصد کی خاطر مرنا زندگی۔ انہوں نے موت کو شکست دی۔ ان کی شہادت ارتقاء تھی: فرد سے فکر کی طرف، زندگی سے لافانیّت کی طرف۔ ایسے شہداء نہ صرف تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں، بلکہ مستقبل کا راستہ بھی متعین کرتے ہیں۔ وہ زندہ رہتے ہیں—کتابوں میں، ترانوں میں، دیواروں پر، اور دلوں میں۔ ان کی شہادت قومی وجود کا ایک ارتقائی لمحہ ہوتی ہے، جہاں غلامی کا طوق ٹوٹتا ہے اور شعور کا سورج طلوع ہوتا ہے۔

وہ جانتے تھے کہ جسم مٹ جاتے ہیں، لیکن نظریات زندہ رہتے ہیں؛ آوازیں دبائی جا سکتی ہیں، مگر صدائیں گونجتی رہتی ہیں۔ ان کی شہادت نے بلوچ نوجوانوں کو یہ پیغام دیا کہ فکر، جبر سے زیادہ طاقتور ہے۔

شہید کریم بلوچ ایک فرد نہیں، ایک عہد کا نام ہے—ایک ایسا عہد جو آج بھی جاری ہے اور جو کل بھی زندہ رہے گا۔ وہ وقت کی قید میں نہیں آئے، بلکہ وقت کو بدلنے کے لیے اٹھے۔ وہ کسی لمحے کی پیداوار نہیں تھے، بلکہ تاریخ کے اس دھارے کا حصہ تھے، جو قوموں کو شعور، آزادی اور مزاحمت کی طرف لے جاتا ہے۔ آج جب ہم ان کا نام لیتے ہیں، تو ہمیں ان کے آدرش کو حقیقت میں بدلنے کا عہد بھی کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ صرف ہمارے دلوں میں نہیں، بلکہ ہماری سوچ، ہماری جدوجہد اور ہماری اجتماعی آگہی میں زندہ ہیں۔

فکر کا جینیاتی ورثہ اور شہید کریم بلوچ

شہید کریم جان جیسے لوگ اس فکری تسلسل کا حصہ ہیں، جو سبھاش چندر بوس، بھگت سنگھ، چندر شیکھر آزاد، ہو چی من، فیڈل کاسترو، چی گویرا، نیلسن منڈیلا، اور ہزاروں بلوچ شہداء کے فکری دھارے میں شامل ہیں۔ ان کا کردار ایک بیج کی مانند ہے، جو فنا ہو کر بقاء کو جنم دیتا ہے۔ وہ آج ہمارے درمیان جسمانی طور پر موجود نہیں، لیکن ان کے الفاظ، ان کے افکار، اور ان کے آدرش ہماری تحریروں، ہماری جدوجہد اور ہمارے شعور میں زندہ ہیں۔ ان کی مسکراہٹ اور ان کے کردار کی خوشبو آج بھی ہم جیسے فکری کارکنوں کے ذہنوں کو معطر رکھتی ہے۔ وہ محض ایک دوست نہیں، بلکہ ایک استاد، ایک مشعل راہ تھے—بشرطیکہ ہم ان کے نظریات کو پڑھیں، سمجھیں اور اپنائیں۔

دنیا کی تاریخ میں وہ لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، جو اپنے وجود کو کسی اعلیٰ نظریے کے لیے وقف کرتے ہیں، اور شہید کریم بلوچ ان ہی صفحۂ تاریخ کے درخشندہ پنوں میں ایک نظریاتی دبستان، ایک فکری کارواں، اور ایک انقلابی تحریک کی روحِ رواں ہیں۔

شہید کریم بلوچ کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کا نظریاتی استقلال اور تحریک سے غیر متزلزل وابستگی تھی۔ وہ خوف کے اسیر نہیں تھے۔ جبراً لاپتہ کیے جانے سے پہلے بھی وہ جانتے تھے کہ ایک دن یہ ریاست انہیں جسمانی طور پر مٹا دینے کی کوشش کرے گی، مگر وہ اس انجام سے بے خبر نہیں تھے۔ کریم بلوچ جدوجہد سے اس طرح جڑے رہے، جیسے ان کی رگوں میں صرف خون نہیں، بلکہ انقلابی فکر بہتی ہو۔

تاریخ، انسان کے قابض و مقبوض کے تضاد، اور استحصال و مزاحمت کے ارتقائی عمل کا نام ہے۔ جب کسی قوم یا خطے پر جبر و استعمار مسلط ہوتا ہے، تو اس کے بطن سے مزاحمت جنم لیتی ہے۔ اور اس مزاحمت کے بطن سے ایسے کردار ابھرتے ہیں جو فرد نہیں بلکہ فکر، نظریہ اور عمل کا متحرک اظہار ہوتے ہیں۔ بلوچ قومی جدوجہد کی تاریخ ایسے ہی کرداروں سے عبارت ہے، اور انہی کرداروں میں ایک تابندہ نام شہید کریم بلوچ کا ہے، جو اس فکری تسلسل کی ایک ناگزیر کڑی ہیں۔

جدلیاتی مادیت کے اصول کے مطابق، کوئی بھی مظہر (Phenomenon) اچانک اور بے سبب نہیں ہوتا بلکہ مادی حالات کے ارتقاء، تضادات اور ان کے حل کے نتیجے میں سامنے آتا ہے۔ اسی اصول پر اگر شہادت کو پرکھا جائے تو یہ محض ایک روحانی یا مذہبی تصور نہیں رہتی، بلکہ ایک مادی، سائنسی اور جدلیاتی ضرورت کے طور پر سامنے آتی ہے۔ جب کسی مقبوضہ قوم کو بیرونی ریاستی جبر، جارحیت اور نسل کشی کا سامنا ہو، تو ان حالات کے خلاف مزاحمت ایک فطری مظہر بن جاتی ہے۔ اور جب مزاحمت بلند ترین مرحلے پر پہنچتی ہے تو وہ قربانی، یعنی شہادت کی صورت اختیار کرتی ہے۔

"جینیاتی ورثہ” صرف جسمانی یا حیاتیاتی تسلسل کا نام نہیں، بلکہ اس میں فکری، ثقافتی، مزاحمتی اور نظریاتی عناصر بھی شامل ہوتے ہیں۔ ہر شہید اپنے پیچھے صرف ایک لاش نہیں چھوڑتا، بلکہ وہ فکر، تنظیمی تجربہ، انقلابی اخلاقیات اور جدوجہد کا ورثہ چھوڑتا ہے۔ یہ ورثہ اگلی نسل کے شعور میں سرایت کرتا ہے، اور وہ اسے اپنی فکری میراث کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ یہی فکری وراثت اجتماعی شعور کا حصہ بن کر جدوجہد کے تسلسل کو ممکن بناتی ہے۔

شہید کریم بلوچ کو اگر ایک انقلابی تسلسل کے تناظر میں دیکھا جائے، تو وہ محض ایک شخص نہیں، بلکہ شہید حمید بلوچ، شہید فدا احمد، شہید غلام محمد، شہید بالاچ مری، اور دیگر فکری و عملی انقلابیوں کی روایت کا ایک منطقی تسلسل ہیں۔ ان کا فکر نہ جذباتی تھا، نہ سطحی، بلکہ سائنسی، تجزیاتی، اور معروضی حالات کے ساتھ مربوط تھا۔ وہ جانتے تھے کہ غلامی کا خاتمہ محض بے عملی سے نہیں، بلکہ فکری، تنظیمی، عسکری، سفارتی اور نظریاتی محاذ پر مربوط جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔

ان کی سیاسی و شعوری بصیرت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جدلیاتی مادیت کے اصولوں سے بخوبی واقف تھے۔ وہ تاریخی مادیت کے اس اصول پر یقین رکھتے تھے کہ "سماجی وجود، شعور کو متعین کرتا ہے”۔ اسی لیے انہوں نے سیاسی شعور کو بیدار کرنے پر سب سے زیادہ زور دیا۔

ہر شہید اپنی ذات میں ایک تاریخی فاصلہ طے کرتا ہے۔ وہ ماضی، حال اور مستقبل کے درمیان ایک انقلابی پُل کی حیثیت رکھتا ہے۔ شہید کریم بلوچ نے ماضی کی فکری وراثت کو حال کے شعور میں منتقل کیا، اور اس شعور کو مستقبل کی انقلابی نسل کے لیے ایک نظریاتی سرمایہ بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی نوجوان ان کی فکر سے فیض یاب ہو کر شعور، مزاحمت اور آزادی کے عمل میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

شہادت کے معنی صرف جسم کی فنا نہیں، بلکہ فکر کی بقا ہیں۔ یہ ایک ایسا تسلسل ہے جو خون سے نہیں، بلکہ نظریے سے جڑتا ہے۔ شہید کریم بلوچ اسی نظریاتی وراثت کے امین اور علمبردار تھے۔ ان کا خون مٹی میں جذب نہیں ہوا، بلکہ وہ بلوچ قومی شعور میں رچ بس گیا ہے۔ وہ ایک لمحہ نہیں، ایک عہد، ایک تسلسل، ایک سائنسی اور مادی حقیقت ہیں۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

قلات: پاکستانی فورسز پر حملہ اور مورچوں پر قبضہ، خاران میں ناکہ بندی، گاڑیوں کی چیکنگ

منگل اپریل 22 , 2025
بلوچستان کے ضلع قلات میں مسلح افراد نے پاکستانی فورسز کو حملے میں نشانہ بنایا، جبکہ مسلح افراد فوجی مورچوں کے اندر داخل ہوگئے۔ جبکہ خاران میں مسلح افراد کی جانب سے سی پیک روڈ پر ناکہ بندی کی گئی اور گاڑیوں کی چیکنگ کی گئی۔ اطلاعات کے مطابق مسلح […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ