شہید کریم بلوچ: ایک نظریہ، ایک کردار، ایک تسلسل!

تحریر: رامین بلوچ (تیسرا حصہ)
زرمبش مضمون

مجھے یقین ہے کہ کریم بلوچ آج بھی زندہ ہے —نوجوانوں کے شعور میں، سوالات میں، اور اس امید میں کہ سچائی کبھی دفن نہیں ہوتی۔
شہید کریم بلوچ نہ صرف ایک انقلابی تھے بلکہ ایک فکری روایت کے وارث، عملی جدوجہد کے امین اور بلوچ قومی شعور کے معمار بھی تھے۔ ان سے شناسائی محض ایک یادداشت نہیں بلکہ ایک فکری رشتہ، ایک شعوری بندھن، اور ایک سیاسی وابستگی ہے جو جسم سے زیادہ روح کی زمین پر قائم رہتا ہے۔
کریم بلوچ نے جس سطح پر بی ایس او میں کیڈرز کی تربیت کی، اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ جنہوں نے درجنوں نہیں، سینکڑوں نوجوانوں کو شعور، سیاست، قربانی اور آزادی کے جدوجہد کی جانب راغب کیا۔ ان کا ہر عمل چی گویرا، ہو چی منہ اور فیڈل کاسترو کی روایت سے جڑا ہوا تھا۔ ان کی انقلابی طبیعت بھگت سنگھ اور سبھاش چندر بوس کے ارمانوں کی بازگشت تھی۔
(افتادگان خاک: شعور کا در)
کریم جان نے جب افتادگان خاک میرے ہاتھ میں دی، تو گویا میرے شعور کی مٹی میں فکر کا بیج بو دیا۔ فرانتز فینن کی اس عظیم کتاب کو وہ ایک صحیفہ مانتے تھے، آزادی کے متوالوں کا آسمانی منشور۔ ان کے الفاظ آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں، "یہ مقدس کتاب ہے، اسے سمجھو، اسے پڑھو۔” کریم بلوچ کے دیے ہوئے اس فکری ہدایت نامہ نے مجھ جیسے نوجوان کو صرف سیاسی نہیں، فکری طور پر بھی بلوغت دی۔
یہ کتاب محض الفاظ کا مجموعہ نہیں تھی، بلکہ وہ ایک ایسی مشعل،جوصدیوں سے دبی، کچلی اور خاموش رکھی گئی آوازوں کی بازگشت تھی۔ اورجو شعور کے ہر زخم کو اپنے وجود میں سمیٹ چکا ہو۔ میرے لیے فرانز فینن کی کتاب ایسا ہی ایک نذرانہ تھا — ایک فکری صحیفہ، جو شہید کریم بلوچ
کے ہاتھوں میرے حوالے ہوا۔
میں آج بھی وہ لمحہ نہیں بھول سکتا جب کریم نے مسکرا کر وہ کتاب مجھے دی، جیسے کوئی ولی اپنا سب سے قیمتی راز اپنے مرید کو سونپتا ہے۔ وہ صرف ایک کتاب نہ تھی، وہ ایک مقدس امانت تھی۔ ہزاروں کتابوں میں سے فینن کے کتاب کا انتخاب کرکے کو میرے ہاتھوں میں دینا، درحقیقت ایک ایسے شعور ی چراغ میرے سینے میں جلانے کے مترادف تھا جس نے میری فکری خیالات کو مزید منور کر دیا۔ مجھے آج بھی الفاظ نہیں ملتے کہ میں شہید کا کس طرح شکریہ ادا کروں۔ کیا میں صرف "شکریہ” کہہ کر اس عظیم روح کا احسان ادا کر سکتا ہوں جس نے میرے ذہن کی زنجیروں کو توڑا، مجھے افتادگانِ خاک کی صفوں میں غلامی چہرہ دکھایا، اور مجھے یہ سکھایا کہ غلامی صرف زنجیروں کا نام نہیں، بلکہ ایک نفسیاتی قید و اذیت ہے، جس سے آزادی محض بغاوت سے نہیں بلکہ شعور سے حاصل ہوتی ہے؟
فرانز فینن کی تحریریں میرے لیے اس لمحے سے زیادہ اہم تھیں جب میں نے پہلی بار اپنے وجود کو نوآبادیاتی زنجیروں میں جکڑا ہوا محسوس کیا۔
اور جب میں نے ان تحریروں کو شہید کریم بلوچ کی آنکھوں کے تناظر سے پڑھا، تو ہر صفحہ ایک نوحہ اور ایک نعرہ بن گیا
۔ فینن کے الفاظ جیسے کریم کی زبان سے نکلے ہوں — "جبر کا توڑ صرف مزاحمت سے ہوتا ہے، اور شعور کی بیداری سب سے پہلا معرکہ ہے "۔
جب بھی میں افتادگان خاک کا کوئی صفحہ کھولتا ہوں، مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کریم بلوچ میرے سامنے بیٹھے ہیں، اور وہ مجھے ان الفاظ کی گہرائی سمجھا رہے ہیں۔ ہر لفظ ان کی قربانی کی خوشبو میں بھیگا ہوا ہے، ہر سطر ان کے خوابوں کا تسلسل ہے۔ یہ کتاب میرے لیے فقط فینن کا فلسفہ نہیں، بلکہ کریم بلوچ کا پیغام ہے، ان کی وصیت ہے، اور ان کی صداہے۔
کریم بلوچ نے نہ صرف بلوچ نوجوانوں کو کو فکری بنیادیں مہیا کیں، بلکہ فرداً فرداً ایسے چراغ جلائے جو آج بھی شعور کی تاریکیوں میں روشنی کا کام دے رہے ہیں۔ میری آنکھوں میں وہ منظر ہمیشہ نقش رہے گا: ایک کتاب، ایک ہاتھ، ایک مسکراہٹ — اور وہ لمحہ جب میں نے پہلی بار افتادگانِ خاک کے درد کو شعور کی زبان میں سمجھا۔
فرانز فینن Fanon) (Frantzکا نام بیسویں صدی کے اُن مفکرین میں آتا ہے جنہوں نے نوآبادیات، جبر، نسل پرستی اور مزاحمت کو نہ صرف فکری گہرائی کے ساتھ پرکھا، بلکہ اس کی نفسیاتی اور وجودی جہات کو بھی اجاگر کیا۔ فینن کا علمی و فکری سرمایہ افتادگانِ خاک — یعنی وہ مظلوم و مقبوضہ اقوام جو نوآبادیاتی نظام کے پنجہئ استبداد میں کچلے گئے — کے لیے ایک صدائے بیداری ہے۔ یہ صرف سیاسی آزادی کی تحریک نہیں بلکہ شعور کے زخموں کا ادراک اور ان کی شفا کی ایک انقلابی کوشش ہے۔
فینن کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ نوآبادیات صرف مادی وسائل کی لوٹ مار نہیں، بلکہ یہ ایک ہمہ گیر وجودیاتی و نفسیاتی عمل ہے، جو مقبوضہ اقوام کے شعور، شناخت اور خودی کو مجروح کرتا ہے۔ اس کی دوسری کتاب ” Black Skin White Mask, ” میں وہ غلامی اور استعمار کے ذہنی و نفسیاتی اثرات کا تجزیہ کرتا ہے، کہ کس طرح کالے جسم پر سفید نقاب چڑھایا جاتا ہے، یعنی مظلوم اپنی خودی کھو کر غالب کی شناخت کو اپنانے پر مجبور ہوتا ہے۔
افتادگانِ خاک وہ لوگ ہیں جو زمین پر سب سے نیچے دھکیل دیے گئے، جن کی زبانوں کو وحشی قرار دیا گیا، جن کے رنگ کو کمتر اور ان کی
ثقافت کو پسماندہ کہا گیا۔ فینن کے نزدیک یہ محض ایک سیاسی یا نسلی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک گہرا فکری اور شعوری بحران ہے۔ ان افتادہ اقوام کے شعور میں ایک مسلسل جنگ برپا ہے: ایک طرف ان کی اصلی شناخت ہے، اور دوسری طرف استعمار کی تھوپی ہوئی جعلی شناخت۔
شعور کا درد وہ لمحہ ہے جب افتادہ فرد یا قوم اپنی حالتِ زوال پر سوال اٹھاتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب وہ یہ جان لیتی ہے کہ وہ جو کچھ ہے، اس پر
باہر سے مسلط کیا گیا ہے۔ فینن اسی لمحے کو بیداری کا نقطہ آغاز مانتا ہے۔ یہ درد خودشناسی کا پہلا قدم ہے، جو ایک داخلی بحران کو جنم دیتا ہے، اور بالآخر شعوری مزاحمت میں تبدیل ہوتا ہے۔
فینن کے بقول:”ہر نسل کو اپنے تاریخی و شعوری تناظر میں اپنے مشن کو پہچاننا ہوتا ہے: یا تو اسے پورا کرے، یا اسے دھوکہ دے“
فینن کی شاید سب سے اہم دلیل یہ ہے کہ نوآبادیاتی جبر کا توڑ صرف انقلابی تشدد سے ممکن ہے۔ وہ تشدد کو بطور اخلاقی اصول نہیں بلکہ بطور
وجودیاتی تطہیر (catharsis) دیکھتا ہے، جو محکوم کو انسان ہونے کا شعور واپس دیتی ہے وہ وہ دلیل دیتا ہے کہ جبر کے خلاف مزاحمت بذاتِ خود فرد کی گم شدہ خودی کو بحال کرتی ہے — یہ جوابی تشدد یا کاؤنٹر وائلنس آزادی کے لیے ایک لازمی مرحلہ ہے، کیونکہ نوآبادیاتی طاقت صرف طاقت کی زبان کوسمجھتی ہے ۔ فینن اس بات پر زور دیتا ہے کہ مظلوم اقوام کو صرف سیاسی آزادی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ انہیں اپنی زبان، اپنی کہانیاں، اپنی جمالیات اور اپنی تاریخ کو دوبارہ سے لکھنا اور جینا چاہیے۔ شعور کی بیداری کا مطلب ہے اپنی پوری موجودگی کو استعماری بیانیے سے آزاد کرنا ہے۔
کریم بلوچ کی جدائی ایک زخم ضرور ہے، مگر یہ زخم ایک نئی صبح کی بشارت ہے۔ آج بھی جب کسی سنگت کے ہاتھ میں افتادگان خاک نظر آتی ہے، جب کوئی نوجوان تحریک کے نظریاتی حلقے میں شامل ہوتا ہے، جب کوئی بلوچنوجوان سوال کرتا ہے، تب میں دیکھتا ہوں کہ کریم بلوچ واپس آ چکا ہے، نئی شکل میں، نئی آواز میں، نئی امید کے ساتھ۔وہ زندہ ہے ………………
کیونکہ فکر مرتی نہیں، قربانی رائیگاں نہیں جاتی، اور مشعلیں ہمیشہ ایک سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی ہیں۔
(شہید کریم بلوچ: ایک عہد، ایک نظریہ، ایک شعور)
جب ہم شہید کریم بلوچ کا نام لیتے ہیں تو محض ایک فرد یا ایک سیاسی کارکن کا تذکرہ نہیں کرتے، بلکہ ایک عہد، ایک مسلسل انقلابی شعور، اور ایک اجتماعی مزاحمت کی مجسم صورت ہمارے ذہن میں ابھرتی ہے۔ وہ تاریخ کے اُن تجلیوں میں سے ایک تھے جنہیں ہوائیں بجھا نہیں سکتیں، جن کی روشنی وقت کے سفر میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتی ہے۔ ان کی وجودذات محض ایک جسم نہیں، ایک زندہ نظریہ، تھی جو ظلم کی ہر دیوار پر ہتھوڑا بن کر برسی۔
کریم بلوچ کا وجود بلوچ قومی تحریک کی اُس فکری زنجیر کی ایک اہم کڑی تھا جسے نوآبادیاتی جبر، اور ریاستی استبداد نے توڑنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر وہ ہر وار پر مزید نکھرتا گیا۔ وہ بلوچ مزاحمت کے اُس استعارے میں ڈھل گئے جو نسل در نسل جاری رہنے والی جدوجہد کی
علامت ہے۔ ان کی سیاست جذباتی نعرہ بازی سے ماورا تھی، وہ جذبات کو نظریاتی بصیرت میں ڈھالتے، اور عمل کو شعور کے سانچے میں ڈھال کر ایک ایسی سیاسی راہ متعین کرتے جو فرد سے قوم تک، لمحے سے تاریخ تک، اور احتجاج سے انقلابی تبدیلی تک کا سفر تھی
کریم بلوچ کا فکری افق وسیع تھا۔ انہوں نے بلوچ مزاحمت کو محض قومی حقوق تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے پنجاپی ستعمار کے خلاف ایک مزاحمتی بیانیہ میں ڈھالا۔ ان کی تقریریں اور جدوجہدصرف سیاسی بیانات نہیں تھیں بلکہ وہ کلمات تھیں جو قومی آزادی کے ساتھ ساتھ انسان کی بنیادی آزادی، وقار اورخود اختیاری کا مقدمہ لڑتی تھیں۔ وہ کارل مارکس کے اس تصور کے قائل تھے کہ "آزادی انسان کی فطرت
ہے، اور جبر کے خلاف مزاحمت انسان کا بنیادی حق۔”
انہوں نے بلوچ قوم کو خواب غفلت سے نکال کر اس کی مقصد اور منزل کی طرف متوجہ کیا — وہ منزل جو قربانی، آگہی، تنظیم، اور جدوجہد سیتعبیر ہوتا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ ہر وہ خیال جو شعور سے خالی ہو، ایک فریب ہوتا ہے؛ اور ہر وہ مزاحمت جو نظریہ سے خالی ہو، ایک شورش ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ مزاحمت کو فکری بنیادوں پر استوار کرتے، اور انقلاب کو تنظیمی ڈھانچے میں گوندھ کر آگے بڑھاتے۔
کریم بلوچ کی شہادت ایک سوال تھا جو زندہ قوموں کے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے کہ ایک فرد کیسے اپنی ذات سے نکل کر قوم کے اجتماعی شعور میں تحلیل ہو جاتا ہے؟ ان کی شہادت، فناء نہیں بلکہ ایک نتخلیق ہوتی ہے —

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

پنجگور، مند اور گومازی میں قابض پاکستانی فورسز و پولیس پر حملوں کی زمہ داری قبول کرتے ہیں، بی ایل ایف

پیر اپریل 21 , 2025
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے کہا ہے کہ سرمچاروں نے پنجگور اور گومازی میں قابض پاکستانی فورسز کو دو مختلف حملوں میں نشانہ بناکر جانی و مالی نقصان پہنچایا جبکہ مند میں پولیس تھانے پر حملہ کرکے تھانہ کا تمام اسلحہ ضبط کرلیا۔ انہوں نے کہا […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ