تحریر: رامین بلوچ — آخری قسط
زرمبش اردو

ایوب بلوچ اور راج گرو: دو عہدوں کا انقلابی رشتہ
تاریخ کے صفحات میں کچھ نام ایسے ہوتے ہیں جو محض واقعات کا حوالہ نہیں بنتے، بلکہ ایک سوچ، ایک جذبہ، اور ایک انقلابی روایت کی علامت بن جاتے ہیں۔ ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں راج گرو ایسا ہی ایک نام ہے —وہ نوجوان انقلابی جس نے بھگت سنگھ اور چندر شیکھر آزاد کے ساتھ مل کر انگریز نوآبادیاتی سامراج کے خلاف ایسی مزاحمت کی، جو آج بھی مزاحمت کے علامت کے طور پر زندہ ہے تاریخ کبھی محض واقعات کی فہرست نہیں ہوتی بلکہ شعور کی ایک مسلسل بیداری ہوتی ہے، جو ہر نسل کو سوال اٹھانے، مزاحمت کرنے، اور قربانی دینے پر آمادہ کرتی ہے۔ ایسی تاریخوں میں کچھ نام محض افراد نہیں ہوتے بلکہ ایک پورے عہد کی علامت بن جاتے ہیں۔ شہید ایوب بلوچ اور شہید راج گروہ دو ایسی ہی شخصیات ہیں، جو مختلف جغرافیوں، زمانوں اور سامراجی قوتوں کے خلاف برسرپیکار رہے، مگر ان کی روحِ مزاحمت، انقلابی فکر، اور قربانی کا فلسفہ ایک مشترکہ نظریاتی دھارے میں بہتا نظر آتا ہے۔
راج گروہ برطانوی استعمار کے خلاف ہندوستانی انقلابی تحریک کے ایک عظیم سپاہی تھے۔ راج گروہ کی جدوجہد نے آزادی کی تحریک کونرم بازو کی سیاست سے نکال کر قومی مزاحمت کی جانب مائل کیا، جہاں سامراج کے خلاف مزاحمت ایک مقدس فریضہ بن گئی۔ انہوں نے اپنے خون سے وہ تاریخ لکھی جو آج بھی ہر انقلابی کو راستہ دکھاتی ہے کہ جب ریاست ظلم کی محافظ بن جائے تو مزاحمت فرض ہو جاتی ہے۔
دوسری جانب بلوچستان کی سرزمین پر پیدا ہونے والا شہید ایوب بلوچ، جو کئی دہائیوں بعد ایک مختلف مگر مماثل استعماری تسلط کے خلاف اٹھا، اپنے اندر وہی عزم، وہی جذبہ، اور وہی قربانی کا شعور لے کر ابھرا۔ لیکن ایوب کے دل میں اگر کسی انقلابی کی شخصیت نے سب سے گہرا اثر چھوڑا، تو وہ راج گرو تھا۔ ایوب بلوچ کے لیے راج گرو صرف ایک تاریخی کردار نہیں، بلکہ ایک فکری آئیڈیل، ایک اخلاقی رہنما، اور عملی جدوجہد کا سرمشق تھا۔
راج گرو کی شخصیت ایوب کو اس لیے خاص طور پر متاثر کرتی تھی کہ وہ خاموش اور مستقل مزاج مزاحمت کا پیکر تھا۔ وہ نہایت کم گو تھا، لیکن جب وقت آیا تو زبان سے زیادہ عمل سے بولا۔ یہی پہلو ایوب بلوچ کے مزاج سے گہری مطابقت رکھتا تھا۔ ایوب بلوچ نے نمود و نمائش کو اپنا ہ شعارر نہیں بنایا؛ اس نے مزاحمت کو عمل، سوچ، اور قربانی کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا۔ راج گرو کی طرح ایوب بھی جانتا تھا کہ آزادی کا راستہ محض دعووں سے نہیں، قربانیوں سے ہموار ہوتا ہے۔
ایوب اکثر کہا کرتا تھا کہ "راج گرو وہ انقلابی تھا جس نے بھگت سنگھ کے خیال کو روح دیا، اور روح کو قربانی کا رنگ بخشا۔ وہ شخص جس نے اپنی زندگی کو ایک مقصد کے لیے وقف کر دیا، بغیر کسی ذاتی مفاد کے، بغیر کسی شہرت کی خواہش کے۔” ایوب کے دل میں یہ تمنا ہمیشہ رہی کہ اس کی جدوجہد بھی اسی نوع کی ہو—ایسی جسے تاریخ کی آنکھیں بھی جھک کر سلام کریں۔
ایوب بلوچ نے راج گرو سے یہ سیکھا کہ اپنی پوری زندگی کو ایک نظریے کے تابع کر دینا مزاحمت کی معراج ہے۔ سامراج کی دیواروں کو گرانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی انا، خوف، اور خواہشات کو مسمار کرے۔ راج گرو کی مثال ایوب جان بھی گیا۔ خود کو ایک طویل اور صبرآزما جدوجہد کے لیے وقف کر دیا، ایوب بلوچ کی گفتگو، اور حتیٰ کہ اس کی خامشی میں بھی راج گرو کی روح بولتی تھی۔ جس طرح راج گرو نے اپنی جان دے کر آنے والی نسلوں کو آزادی کا پیغام دیا، ایوب بھی اپنی زندگی کو ایک مثال بنانے کے لیے کوشاں رہا۔ اس نے سیکھا کہ قوموں کی تقدیر انقلابیوں کے خون سے لکھی جاتی ہے، اور وہ خون جس میں خلوص، مقصد اور فکری وابستگی نہ ہو، وہ کبھی زمین میں بیج بن کر نہیں اگتا۔
ایوب بلوچ راج گرو کو کیوں پسند کرتا تھا؟ اس لیے نہیں کہ وہ ایک مشہور انقلابی تھا، بلکہ اس لیے کہ راج گرو نے خود کو تاریخ کے کسی ہیرو کے طور پر نہیں، بلکہ ایک کارکن، ایک قربانی دینے والے سپاہی کے طور پر پیش کیا۔ وہ فرد نہیں، تحریک کی علامت تھا۔ ایوب بھی یہی بننا چاہتا تھا—فرد نہیں، تحریک کی روح۔
ان دونوں کے درمیان وقت، جغرافیہ، اور سیاق کا فرق ضرور ہے، لیکن جو چیز ان کو جوڑتی ہے، وہ ہے مزاحمت کا آفاقی اصول: ظلم کے خلاف کھڑا ہونا، خواہ اس کی قیمت جان ہی کیوں نہ ہو۔
شہید ایوب بلوچ، بلوچ قومی تحریک کے اس پڑاؤ پر نمودار ہوئے جب ریاستی جبر اپنی تمام تر شدت کے ساتھ بلوچ شناخت، زبان، تاریخ اور سیاسی خودمختاری کو مٹانے پر تُلا ہوا تھا۔ایوب بلوچ کی فکر میں واضح تھا کہ بلوچ قوم کو اپنی بقا کے لیے نہ صرف ریاستی جبر کے خلاف لڑنا ہوگا بلکہ اپنی تہذیب، تاریخ، اور آزادی کی بازیافت کے لیے ایک ہمہ جہت فکری، نظریاتی اور انقلابی جدوجہد کرنی ہوگی۔ وہ شہید ہوئے، مگر ان کا فکر آج بھی بلوچستان کے پہاڑوں، میدانوں، اور گلیوں میں گونج رہا ہے۔
شہید راج گروہ اور شہید ایوب بلوچ کے کرداروں کا موازنہ ہمیں دکھاتا ہے کہ ظلم کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے، مگر مزاحمت کی روح ایک جیسی ہوتی ہے۔ راج گروہ نے ہندوستان میں برطانوی استعمار کے خلاف علم بغاوت بلند کیا، تو ایوب بلوچ نے پاکستانی نوآبادیاتی نظام کے خلاف صدائے حریت بلند کی۔ دونوں کی جدوجہد میں ایک خاص فکری مماثلت ہے۔
راج گروہ کا نظریہ واضح تھا: ظلم کے خلاف خاموش رہنا جرم ہے۔ ایوب بلوچ نے اسی نظریے کو بلوچ تناظر میں اپنایا۔ انہوں نے مزاحمت کو ہتھیار،شعور، تربیت، تنظیم، اور فکری بیداری سے جوڑا۔
راج گروہ کو برطانوی حکومت نے پھانسی دے دی، اور ایوب بلوچ کو پاکستانی ریاست نے گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ مگر کیا وہ مر گئے؟ تاریخ کہتی ہے: نہیں۔ وہ زندہ ہیں، کیونکہ ان کی قربانی نظریات کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ وہ کسی وقتی سیاسی جماعت کا ایندھن نہیں تھے، بلکہ ایک طویل انقلابی روایت کا تسلسل تھے۔ راج گروہ نے ہندوستان کے نوجوانوں کو انقلابی فکر دی، ایوب بلوچ نے بلوچ نوجوانوں کو قوم دوستی کی فکری روشنی عطا کی۔
(شہید ایوب بلوچ: ایک مزاحمتی کردار اور "Rebel” کا اعزازی لقب)
شہید ایوب بلوچ کو ان کے ساتھیوں نے ان کی زندگی میں "Rebel” کا اعزازی لقب دیا، جو نہ صرف ان کی مزاحمتی کردار کی عکاسی کرتا ہے بلکہ ان کی زندگی اور جدوجہد کے اصل مقصد کو بھی واضح کرتا ہے۔ ایوب بلوچ کا نام تاریخ میں ایک مزاحمتی کردارکے طور پر لکھا جائے گا جس نے اپنی قوم کی آزادی، خودمختاری اور شناخت کے لیے بے مثال قربانیاں دیں۔
بلوچ قومی تحریک کی تاریخ میں کئی ایسے نام ہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں کو ایک مقصد، ایک جدوجہد اور ایک خواب کے لیے وقف کر دیا — وہ خواب جس کا تعلق آزادی، خودمختاری، اور استحصال سے پاک مستقبل سے ہے۔ ان ہی عظیم ناموں میں ایک درخشندہ ستارہ "شہید ایوب بلوچ” کا ہے، جنہیں ان کی زندگی میں "Rebel” کے اعزازی لقب سے یاد رکھا گیا۔ یہ لقب صرف ایک تعریفی تمغہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی مقام، ایک انقلابی پہچان اور ایک مزاحمتی علامت ہے۔
”Rebel” کا انگریزی میں لغوی مطلب بغاوت کرنے والا ہے، مگر استعماری سیاق و سباق میں یہ لفظ محض نظمِ اقتدار کے خلاف کھڑے ہونے والے کسی فرد کا بیان نہیں کرتا — یہ لفظ اس انسان کی شناخت بنتا ہے جو ظالم نظام، نوآبادیاتی طاقتوں اور غلامی پر مبنی سیاسی و معاشی ڈھانچوں کے خلاف شعور و فکر کے ساتھ عملی مزاحمت کرتا ہے۔ بلوچ قومی شعور میں "Rebel” ایک فکری مقام ہے، جہاں فرد اپنے ذاتی
مفادات کو ترک کر کے اجتماعی قومی مفاد کی خاطر قربانی دیتا ہے۔
ایوب بلوچ ایک ایسے نوجوان تھے جنہوں نے ابتدائی عمر ہی میں سامراجی ریاست کی ساخت کو سمجھا، اس کے جبر کو پہچانا اور اسے چیلنج کرنے کی ٹھان لی۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ اس جدوجہد میں گزرا جس کا مرکز بلوچ قوم کی آزادی اور شناخت کی بحالی تھا۔
انہوں نے صرف نعروں اور لفاظیت تک خود کو محدود نہیں رکھا بلکہ مسلح اور غیر مسلح دونوں محاذوں پر سرگرم رہے۔ ایوب بلوچ نے مزاحمت کو صرف ایک عسکری عمل نہیں بلکہ ایک فکری، ثقافتی اور سیاسی بیانیہ بنایا — یہی چیز انہیں "Rebel” بناتی ہے۔
ایوب بلوچ کو "Rebel” کہنے کا مطلب یہ تسلیم کرنا ہے کہ انہوں نے ریاستی ساخت، استعماری وراثت اور مقامی گماشتہ اشرافیہ کے خلاف شعوری مزاحمت کی۔ یہ لقب انہیں انقلابی شاعروں، دانشوروں، گوریلا جنگجوؤں اور فکری قائدین کی اس قطار میں کھڑا کرتا ہے جنہوں نے بندوق کے ساتھ فکر سے بھی لڑائی لڑی۔
ریاستی بیانیہ ہمیشہ سے ایسے کرداروں کو "باغی”، "شرپسند”، یا "دہشتگرد” کہہ کر ان کی جدوجہد کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا آیا ہے۔ مگر "Rebel” کا اعزازی لقب، ان تمام اصطلاحات کا ایک نظریاتی رد ہے۔ یہ ایک دعویٰ ہے کہ ہاں! ہم مزاحمت کرتے ہیں، مگر قبضہ کے خلاف؛،ناانصافی کے خلاف۔
ایوب بلوچ واقعی "Rebel” تھے یعنی مزاحمت کار اسے باغی کہنا ریاستی لغط ہے — مزاحمت کا مطلب بغاوت نہین بلکہ غلامی کے خلاف مزاحمت جرم نہیں، فریضہ ہیں۔
آج کا بلوچ نوجوان جب ایوب بلوچ کو "Rebel” کے لقب سے یاد کرتا ہے، تو وہ دراصل ایک فکری وراثت کو اپناتا ہے۔ یہ لقب ایک اعزازہے — مزاحمت کی، شعور کی، قربانی کی، اور اس اجتماعی سفر کی جس کا انجام آزادی ہے۔
شہید ایوب بلوچ کو "Rebel” کہنا ایک تاریخی ذمہ داری ہے۔ یہ بلوچ قومی مزاحمت کی تاریخ میں ایک فکری مقام کا اظہار ہے۔ ایوب بلوچ صرف ایک فرد نہیں، ایک تحریک تھے — اور "Rebel” صرف ایک لفظ نہیں، ایک تاریخ، ایک نظریہ اور ایک مستقل جدوجہد کی علامت ہے۔
ان کا خون فقط زمین میں نہیں جذب ہوا، بلکہ آنے والے ہر انقلابی کے لہو میں دوڑ رہا ہے۔ اور جب تک بلوچ مزاحمت زندہ ہے، ایوب بلوچ "Rebel” کی صورت زندہ رہیں گے۔