افغانستان نمروز سے محمود علی لانگو ولد محمد عثمان کے لواحقین نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ایک سال سے وہ افغانستان کے صوبہ نمروز میں بطور مہاجر رہائش پذیر تھا۔ گزشتہ دنوں 18 جون کو افغانستان کے حکومت کے تعاون سے پاکستان کے خفیہ اداروں نے اسے گرفتار کر کے پاکستان لایا گیا جو کہ وہ اب خفیہ اداروں کے Custody میں ہے۔
انھوں نے کہاکہ ہم میڈیا کے توسط سے اقوام متحدہ ایمنسٹی انٹرنیشنل ریڈ کر اس انسانی حقوق سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ انٹر نیشنل ادارے کے قانون کے تحت اسے کسی بھی عدالت میں پیش کریں۔ وہ اگر حکومت پاکستان کو مطلوب ہے تو اس پر ملک کے قوانین کے تحت مقدمہ چلایا جائے اگر اس پر جرم ثابت ہو جائے تو اس کو ملک کے قانون کے تحت سزادی جائے اور اگر بے گناہ ہے تو اُسے رہا کیا جائے ۔
پریس کانفرنس میں کہاکہ اس سے پہلے بھی افغانستان سے بہت سے بلوچ مہاجرین کولا پتہ کیا گیا اور ان کو بعد میں حکومت پاکستان کے حوالے کیا گیا لیکن حکومت پاکستان کے ریاستی ادارے انہیں جبری لاپتہ رکھا اور انکے خاندان والوں کو بھی معلومات فراہم نہیں کیا گیا لیکن وہ لوگ کئی سالوں کے بعد ریاستی اداروں کے حراست سے بازیاب ہوئے اسلئے ہمیں خدشہ ہے کہ افغان حکومت نے محمود علی لانگو کوحکومت پاکستان کے حوالے کیا ہے۔
انھوں نے پریس کانفرنس دوران کہاکہ ہمارے خاندان نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم محمد علی لانگو کی افغانستان سے جبری گمشدگی کے حوالے سے 29 اگست کو (ہمارے خاندان کے 10 لوگ) پر امن طریقے سے شال پریس کلب سے افغانستان کے قونسل خانے تک پر امن مارچ کرینگے اور افغان قونسلیٹ کو ایک یاداشت پیش کرینگے کہ وہ ہمیں محمود علی لانگو کے حوالے سے معلومات فراہم کرے اور ہم ایک ہفتہ یاداشت کے جواب کا انتظار کرینگے اگر افغان قونسلیٹ کی طرف سے ہمیں جواب نہیں ملا تو ہمارے خاندان کے لوگ پر امن اور آئینی طریقے سے افغان قونسلیٹ کے سامنے دھرنادینگے۔