
جبری لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی جانب سے لگائے گئے وی بی ایم پی کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5798 دن مکمل ہوچکے ہیں۔ کیمپ میں اظہارِ یکجہتی کے لیے شال سے سیاسی و سماجی کارکنان، جن میں نور محمد بلوچ، فیض محمد بلوچ، عزیز بلوچ اور متعدد خواتین شامل تھیں، نے شرکت کی اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ جبری گمشدگیاں بلوچ سماج کو ایک گہرے المیے سے دوچار کر چکی ہیں۔ زندگی کی معمول کی روشنی مدھم پڑ چکی ہے، گھٹن کا ماحول ہر سو چھایا ہوا ہے، غم کے سائے طویل ہو چکے ہیں اور خوشیوں کا وجود مٹ چکا ہے۔
انھوں نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر جبری لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ وی بی ایم پی کے کیمپ میں آ کر اپنوں کی گمشدگی کی اطلاع دیتے ہیں۔ پیر کے روز بھی نصیر احمد ولد قیصر خان ساتکزھی اور اکرام ولد نور خان ساتکزھی کے اہلِ خانہ نے کیمپ میں آ کر اطلاع دی کہ ان دونوں کو 13 اپریل 2025 کو شال کے علاقے لیس ڈگاری سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ وی بی ایم پی ان ماورائے عدالت گرفتاریوں کی شدید مذمت کرتا ہے اور ان کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتا ہے۔
ماما قدیر نے مزید کہا کہ جبر سے کسی بھی سماج کو مستقل طور پر دبانا ممکن نہیں۔ ریاست اگرچہ اس طرزِ عمل سے خونریزی میں اضافہ کر سکتی ہے، مگر اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتی۔ انسانی حقوق کی پامالی، لوگوں کو ان کے آئینی و قانونی حقوق سے محروم کرنا، دراصل ریاستی ذمہ داریوں سے انحراف ہے۔ کوئی بھی ریاست قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ اپنے تمام شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے۔ افسوس کہ بلوچستان میں ریاستی اداروں نے جو لاقانونیت کا نظام قائم کیا ہے، وہ مسائل میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔