
بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی جانب سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، صبغت اللہ شاہ جی، بیبو بلوچ اور بیبگر بلوچ سمیت دیگر کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف اتوار کے روز بلوچستان بھر میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں، جن میں خواتین بچوں اور لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں، جبری گمشدگیاں، انسانی حقوق کی پامالیاں اور بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار ناقابل قبول ہے۔ مظاہرین نے کہا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جیسے باہمت افراد کی گرفتاری سے جدوجہد کی تحریکیں دبائی نہیں جا سکتیں۔
اسی طرح تربت میں احتجاجی ریلی کے دوران مظاہرین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت طاقت کے زور پر آوازوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن بلوچ عوام اپنے حقوق کے لیے پُرعزم ہیں اور یہ جدوجہد ہر حال میں جاری رہے گی۔
مقررین کا کہنا تھا کہ بی وائی سی کے خلاف کریک ڈاؤن سے حق کی آواز دبائی نہیں جا سکتی۔ نہ ہی گرفتاریاں اور جبری گمشدگیاں سیاسی تحریکوں کو ختم کر سکتی ہیں۔ بلکہ ریاست جتنا سخت رویہ اپناتی ہے، قومی حقوق کی تحریکیں اتنی ہی زیادہ مضبوط اور منظم ہوتی جاتی ہیں۔ بی وائی سی اپنی آواز کو دبانے کے بجائے مزید شدت کے ساتھ اُٹھائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اب محض ایک فرد نہیں رہیں بلکہ وہ بلوچ قوم کی روح اور بلوچستان کی شناخت بن چکی ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ کی گرفتاری اگر اس خیال کے تحت کی گئی کہ بلوچ قومی تحریک خاموش ہو جائے گی، تو یہ ریاست کی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اب ہر بلوچ ماہ رنگ کا ترجمان بن چکا ہے۔ وہ ہماری روح میں بس چکی ہیں اور ہماری روحیں خاموش نہیں رہ سکتیں۔
تاہم پولیس کے جانب سے بی وائی سی کے مظاہرین کو ہراساں اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے سمیت گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی لیکن پھر بھی لوگوں کی بڑی تعداد نے احتجاج کو کامیاب بنایا۔