تحریر جمال بلوچ
زرمبش اردو

شہید حکیم بلوچ نے 1975 میں بلوچستان کے تاریخی ضلع مستونگ میں غوث بخش بلوچ کے گھر آنکھ کھولی۔ ان کا تعلق ایک تعلیم یافتہ اور نظریاتی خاندان سے تھا۔ ابتدائی تعلیم میٹرک تک مستونگ سے حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے کوئٹہ (شال) کا رخ کیا، جہاں انہوں نے سریاب کے پولی ٹیکنک کالج میں داخلہ لیا اور الیکٹریکل انجینئرنگ کے طالب علم بنے۔
سن 2000 میں حکیم بلوچ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) میں شامل ہوئے، جس وقت تنظیم کی قیادت ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کر رہے تھے۔ حکیم بلوچ کا نظریاتی شعور ان کے خاندان سے وراثت میں ملا تھا—ان کے والد بلوچ نیشنل موومنٹ اور بلوچ نیشنل یوتھ (بی این وائی) کے بانی ارکان میں شمار ہوتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ حکیم بلوچ کی سیاسی تربیت ایک گہرے شعوری اور فکری ماحول میں ہوئی، اور وہ جلد ہی بی ایس او میں ایک مخلص، جفاکش اور نظریاتی کارکن کے طور پر ابھرے۔
جب بی ایس او آزاد اور بی ایس او استار کا انضمام ہوا تو شہید حکیم بلوچ اس تاریخی اتحاد کی روحِ رواں تھے، جس کے نتیجے میں "بی ایس او متحدہ” کی بنیاد رکھی گئی۔ اس نئے اتحاد کے بعد تنظیم کی ایک آرگنائزنگ کمیٹی تشکیل دی گئی، اور 2005 میں پنجگور میں منعقدہ کونسل سیشن کے بعد حکیم بلوچ کو بی ایس او شال زون کا صدر منتخب کیا گیا۔
بطور صدر، حکیم بلوچ نے شال میں بی ایس او کے یونٹس کو نہ صرف منظم کیا بلکہ انہیں نظریاتی تربیت، سیاسی شعور اور تنظیمی استحکام سے آراستہ کیا۔ انہوں نے مستونگ اور مچھ میں بھی تنظیم کی فعالیت کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کا انداز قیادت بے لوث تھا، اور وہ بلوچ نوجوانوں کو قومی غلامی سے نجات دلانے کی جدوجہد میں شب و روز مصروف رہے۔
انہوں نے تعلیمی اداروں میں باقاعدہ تربیتی سرکلز کا آغاز کیا، جو بلوچستان یونیورسٹی، سائنس کالج، ڈگری کالج، بی ایم سی اور پولی ٹیکنک کالج جیسے اداروں میں ہفتہ وار بنیادوں پر منعقد ہوتے تھے۔ ان نشستوں کا مقصد نوجوانوں کو بلوچ تحریکِ آزادی سے جوڑنا، ریاستی جبر سے آگاہی دینا، اور ایک مربوط سیاسی فہم فراہم کرنا تھا۔
2005 کے آخر میں جب بی ایس او کے مرکزی رہنماؤں، جن میں ڈاکٹر امداد بلوچ، ڈاکٹر اللہ نذر، ڈاکٹر نسیم بلوچ، اختر ندیم بلوچ اور شہید گہور بلوچ شامل تھے، کو کراچی سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تو حکیم بلوچ نے شال زون میں بڑے پیمانے پر مظاہروں، ہڑتالوں اور علامتی بھوک ہڑتالوں کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کی قیادت اور مزاحمت کی بدولت نو ماہ بعد ریاست نے چند لاپتہ رہنماؤں کو ڈیرہ غازی خان کے تھانے میں ظاہر کیا، گوکہ ان پر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے تھے۔
حکیم بلوچ نے یہ جدوجہد اس وقت تک جاری رکھی جب تک تمام رہنماؤں کی بازیابی عمل میں نہ آئی۔ انہوں نے نہ صرف نوجوانوں میں شعور اجاگر کیا بلکہ ریاستی جبر کے خلاف ایک توانا آواز بن کر ابھرے۔
بی ایس او سے فراغت کے بعد حکیم بلوچ نے بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) میں شمولیت اختیار کی اور رابطہ کاری، سیاسی آگاہی اور عوامی موبلائزیشن کے عمل کو جاری رکھا۔ اسی سرگرمی کے دوران ان کے گھر پر متعدد ریاستی چھاپے مارے گئے، اہلِ خانہ کو ہراساں کیا گیا، اور ان کے قریبی رشتہ داروں—بھانجے، چچا زاد بھائی اور داماد تک—کو شہید کر دیا گیا۔
بالآخر، 16 مارچ 2013 کو حکیم بلوچ ایک قومی مشن پر جاتے ہوئے اپنے تین ساتھیوں سمیت شہید کر دیے گئے۔ وہ ایک بہادر، مخلص اور انقلابی رہنما تھے جن کی قربانیاں بلوچ قوم کے لیے مشعل راہ ہیں۔
ابتدائی طور پر ان کی تدفین امانتاً مشکے کے علاقے میں کی گئی، لیکن چار ماہ بعد ان کے اہلِ خانہ کے اصرار پر ان کی میت کو آبائی قبرستان مستونگ منتقل کیا گیا۔ قبر کشائی کے وقت ان کا جسدِ خاکی بالکل صحیح سلامت حالت میں پایا گیا، جیسے وہ اسی روز دفن کیے گئے ہوں۔ یہ منظر ان کی شہادت کے اعلیٰ مقام کی دلیل تھا۔ بعد ازاں، انہیں ان کے شہید بھائی غلام علی بلوچ کے پہلو میں سپردِ خاک کیا گیا۔
شہید حکیم بلوچ کی قربانیاں اور جدوجہد بلوچ قومی تحریک کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ وہ ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے قوم کے نوجوانوں کو سیاسی شعور دیا، جدوجہد آزادی کی راہ دکھائی، اور خود کو مادرِ وطن کے لیے قربان کر دیا۔ ان کی قربانی کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی—ان کے افکار، مشن اور نظریہ کو اپنانا ہی ان کو سچا خراجِ تحسین ہو گا۔