
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے بیان میں کہا: میرے والد، میر بشیر احمد، کو حب کے ایس پی کے دفتر لے جایا گیا ہے—نہ کہ کسی جرم کے باعث، بلکہ میرے سیاسی مؤقف کی وجہ سے۔ انہیں کہا گیا ہے کہ صرف اس صورت میں رہا کیا جائے گا اگر میں خود کو گرفتاری کے لیے پیش کروں۔
انہوں نے کہا کہ یہ قانون نافذ کرنا نہیں بلکہ کھلی سیاسی بلیک میلنگ ہے۔ جب ریاست کسی آواز کو خاموش کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے، تو وہ اُس کے پیاروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیتی ہے۔ میرے والد اور خاندان کو میری سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے بارہا ہراساں کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا ہے کہ مگر فسطائیت یہ بھول جاتی ہے کہ خیالات اُن گھروں میں نہیں بستے جن پر چھاپے مارے جا سکتے ہیں۔ خیالات اُن دلوں میں زندہ رہتے ہیں جو جھکنے سے انکار کرتے ہیں۔
ہمیں خاموش نہیں کیا جا سکتا۔