
میرے نہ ٹوٹنے والے ہم وطنوں:
ہدہ جیل کے احاطہ نمبر 9 کے کوٹھی نمبر 5 سے آپ کی بہن ماہر نگ اور بیبو کی طرف سے آپ سب کو غلامی کی ایک اور عید مبارک
اس قید تنہائی میں تمام تر اذیتوں سے بڑھ کر ایک اذیت سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ بلوچستان کے حالات سے ہمیں لا علم رکھا جارہا ہے۔ ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ پور بلوچستان سراپا احتجاج ہے، لیکن ہمیں ان اجتماعات اور احتجاجات سے لاعلم رکھنے کے لیے ہمارے ہر بڑے عوامی اجتماع اور احتجاج کے بعد ہمیں دو دن پرانی اخبار دی جاتی ہے۔ ان اخباروں میں چھپی خبریں ہمیں پریشان اور پر امید کرتی ہیں۔ پریشانی میں اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب سمی دین کی گرفتاری کی خبر دیکھیں، دھرنوں اور احتجاجی ریلیوں میں کریک ڈاؤن ہو، یا اخبار کے کسی کونے میں کسی بلوچ بھائی کی جبری گمشدگی کی خبر چھپی ہو۔ لیکن اس کے بر عکس اُمید ہمیں یہ چیز دے رہی ہے کہ ہماری قوم آواز اٹھارہی ہے ، ہماری پوری قوم ڈٹی ہوئی ہے ، مزاحمت کر رہی ہے۔ ریاستی تشدد اور طاقت کے بھر پور استعمال کے بعد بھی پورے بلوچستان میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور بلوچ قوم ، گروہ، قبیلہ اور پارٹی سے نکل کر قومی مزاحمتی تحریک کا حصہ بن رہے ہیں۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ آج ریاست اور اس کے تمام نام نہاد جمہوری ادارے ریاستی جھوٹے بیانیے کو لے کر ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ ریاست کے یہ تمام ادارے اور ان کے قوانین بلوچوں کو دہائیوں سے ان کے قومی و انسانی حقوق سے محروم رکھے ہوئے ہیں اور یہی ادارے اور قانون بلوچوں کی پرامن سیاست پر بھی قد غن لگا رہے ہیں۔ کیونکہ بلوچ کا اپنے حق کے لیے بولنا اس ریاست میں جرم اور سب سے بڑی دہشت گردی ہے اور اپنے بے لگام اداروں کے ہاتھوں بے گناہ بلوچوں کا قتل عام سب سے بڑی حب الوطنی ہے۔
ہماری ایک عمر گزری ہے اس خونخوار ریاست کے مظالم کو دیکھتے ہوئے۔ 1 جولائی 2011 کو جب میرے والد کی مسخ شدہ لاش ہمیں سونپی گئی تو اُس وقت کے مطابق وہ ہمارے لیے سب سے بڑا جبر تھا۔ مگر پھر دیکھا کہ یہ ریاست اس سے بھی بڑھ کر جبر کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ پھر بلوچوں کے ہر دوسرے گھر میں مسخ شدہ لاشیں لائی گئیں۔ ان کے گھر ، ان کے گاؤں جلاد ہیے گئے۔ ان کو اپنے ہی زمین میں مہاجرین بنا دیا گیا۔ یہ جر بھی کم محسوس ہوا تو ان کے معصوم بچوں کو ایف سی نے گولہ بارود سے اڑا دیا۔ 2021 میں ان معصوم بچوں کی لاشیں ہو شاپ کینچ سے کوئٹہ ریڈ زون میں لائی گئی تھیں، جنہیں ریاست کی فوج نے بم سے اڑایا تھا۔ ان بچوں کے قاتلوں کو ایک عدالت نے سزادی، تو دوسرے بڑے عدالت نے اس سزا کو منسوخ کیا اور بلوچ عورتوں نے ان معصوم لاشوں کو کندھا دیا، ان کے جنازے شہداء بلوچستان کے قبرستان میں پڑھائے گئے۔ اس کے بعد 21 مارچ 2025 کی وہ رات تھی جب کوئٹہ میں پر امن مظاہرین پر گولیاں برسائی گئیں۔ 13 سالہ نعمت اللہ اور 20 سالہ حبیب اللہ کی لاشیں سر راہ پڑی تھیں۔ ہم لاشوں کے سرانے بیٹھے تھے اور حکومت وقت سے ان لاشوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہے تھے۔
شهید نعمت اللہ کے والد اور چازاد کو زبر دستی لاشوں کو دفنانے کے لیے ضلعی انتظامیہ نے دھمکی دی، ان کے خاندان کے دو افراد پہلے سے ان کے تحویل میں تھے۔ ضلعی انتظامیہ نے ہمارے احتجاج پر حملہ کیا اور زبردستی لاشوں کو لے جانا چاہتے تھے حالانکہ ہم نے 3 گھنٹے پہلے ہی لاشوں کو عزت اور احترام کے ساتھ دفنانے کا اعلان کر دیا تھا لیکن ضلعی انتظامیہ بضد تھی کہ لاشیں ان کو دی جائیں۔ ہماری مزاحمت پر اسٹنٹ کمشنر کوئٹہ چلا گیا اور چند منٹ بعد پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ واپس آیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ نعمت کے خاندان کو لاش کے ہمراہ ہم رخصت کریں گے، پولیس سے ہم خود بات کریں گے۔
مگر پولیس افسروں کے اصرار کے باوجود سول ڈریس میں ایجنسی کے اہلکاروں کے آرڈر پر لاشوں کو زبردستی کھینچا گیا۔ خواتین نے تابوت کو زبردستی جکڑا ہوا تھا اور ان پر پولیس اور ایجنسی کے اہلکار لاٹھیں ہر سارہے تھے۔ اس کے بعد وہ حبیب کی لاش کو زبر دستی اٹھانے آئے۔ اس کا ضعیف والد رو رو کر متیں کرتا رہا۔ مجھ سمیت بیو بوچ اور ہمارے دیگر دوستوں نے تابوت کو جکڑ رکھا تھا مگر ہمیں زبر دستی تابوت سے الگ کیا گیا۔
حبیب بلوچ ایک نہتا نوجوان تھا جو بی وائی سی کے مرکزی ساتھی بیگر بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف ہونے والے احتجاجی دھرنے میں شرکت کرنے آیا تھا۔ اس کے خاندان کے مطابق اس نے آج تک تمام دھرنوں میں شرکت کی تھی۔ اس نہتے اور بے گناہ کو یقین تھا کہ ہم جد وجہد سے اپنے حقوق حاصل کریں گے ۔ اس رات اس کی لاش بھی ایک ناکام اور بے رحم ریاست کے سامنے مزاحمت کر رہی تھی۔ اس کی والدہ کو اطلاع دی گئی اور وہ سحری کے بعد اپنے بیٹے کے دیدار کے لیے آنے والی تھی اور ہمارے لیے یہ قیامت کا منظر تھا۔
پولیس اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے پر امن مظاہرین پر حملے کے دوران میں نے اے سی کوئٹہ کو دیکھا جو چند منٹ پہلے نعمت کے والد کو دھمکا رہا تھا کہ جو ہم نے کہا ہے وہ کرو۔ اس وقت اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے ، وہ حواس باختہ تھا ، اس کے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کر رہا تھا۔ وہی اے سی طاقت کے نشے میں بلوچ عورتوں پر ڈنڈے برسانے کے حکم دے رہا تھا اور بار بار یہی کہہ رہا تھا ” پکڑوان حرام زادیوں کو ۔ میں نے اس رات ایک ایک پولیس افسر اور اسسٹنٹ کمشنر کوئٹہ کے تمام تاثرات کو غور سے دیکھا اور ان کے نفرت کو اپنے دل میں نقش کر لیا۔ یہ نفرت کے بیچ جو بوئے جارہے ہیں ، اس میں آ میں آج شاید بلوچ مظلوم ہے ، طاقت ان کے پاس نہیں ہے مگر یقین کریں، وہ دن ضرور آئے گا جب بلوچ اپنے قاتلوں کے غرور کو ختم ہوتے ہوئے دیکھے گی۔
اس رات مجھے ، بیبو بلوچ ، دو کمسن بچیوں اور حبیب بلوچ کے لواحقین کو گرفتار کیا گیا، ہمیں الگ کر دیا گیا اور حبیب بلوچ کے لواحقین کو ایجنسیوں کے حوالے کیا گیا جہاں انہیں زبر دستی بیان ریکارڈ کروانے کے لیے مجبور کیا گیا۔
جبکہ اس کے علاوہ ہمارے ساتھی بیگر بلوچ کو چھ دن تک لاپتہ کیا گیا، جہاں اس پر ذہنی تشدد کیا گیا اور انہیں بی وائی سی کے خلاف بیان دینے پر مجبور کیا گیا۔ ایسے بہت سے بیانات پہلے بھی دیے گئے ہیں مگر اب ہماری جد و جہد اس مقام تک پہنچ چکی ہے جہاں ان دو سطروں کے بیانات سے کچھ فرق نہیں پڑنے والا ہے۔ آج بلوچ قوم آپ کے جبر ہے۔ جب 21 مارچ کی رات ہم لاشوں کے ہمراہ سریاب روڈ میں دھر نا دے رہے تھے ، اس "victim“ کے چشم دید گواہ ہے، پوری بلوچ قوم آپ کی جبر اور ظلم کی عوض اپنے ضمیر اور ایمر کر دیا ۔ چند ہیوں کے ایمان وقت بلوچستان حکومت کے نام نہاد ترجمان کا بیان آیا کہ ” ن ”بی وائی سی نے ا اسی نے احتجاج کے دوران کسی کی میتوں کو سڑک پر رکھ دیا۔ چند پیسوں کے عوض پرر بیچنے والوں ، وہ کسی کی میتیں نہیں بلکہ اس دھرتی کے کمسن فرزند تھے جنہیں آپ بے لگام بندوق برداروں نے قتل کیا تھا۔
اس وقت سریاب کے عوام ، عورتیں، بچے ہمارے دھرنے میں شریک تھے۔ ان میں سے ہر شخص اس جبر کا گواہ ہے جب پورے دن اپنے فورسز کو سریاب کی گلیوں میں نہتے لوگوں پر فائر کرنے کے احکام کے ساتھ بھیجا گیا۔
آج بلوچ قوم کے قومی جد وجہد پر قدغن لگانے کے لیے اربوں اور کھربوں روپے خرچ کر کے بے ضمیر صحافیوں، بے ضمیر ٹی وی چینلز اور اخبارات کے مالکان کو خرید کر منظم طریقے سے ہمارے پُر امن تحریک کے خلاف ایک پوری پرو پیگنڈہ فوج بنا کر جھوٹے ریاستی بیانیے کو فروغ دیا جارہا ہے۔ لیکن ان ستر سالوں میں ریاست اس معمولی چیز کو بھی سمجھنے مجھنے ۔ سے قاصر رہے ہے کہ جس قوم کے ہر گھر میں آپ نے ایک لاش بھیجی ا ہے ، وہ قوم آپ کے میڈیا پرو پیگنڈہ سے کیسے مرعوب ہو گی ؟ بلوچ جہتی کمیٹی چند لوگوں کی نہیں بلکہ عام عوام کی تحریک ہے ، اس پر کریک ڈاؤن کر کے اس کی مرکزی ساتھوں کو گرفتار کرنے سے اور اس کے خلاف پوری پرو پیگنڈہ فوج فعال کرنے سے آپ اس تحریک کو ناکام نہیں بلکہ زیادہ مضبوط کر رہے ہیں۔
آپ وسائل اور پیسے خرچ کر کے ریاستی بیانیہ کی تشریح کر کے پنجاب کے چند بے ضمیر دانشوروں اور صحافیوں (جن کی صحافت تحقیق اور سچائی کے بجائے ریاستی بیانیہ پر مبنی ہے) کو بلوچوں کے خلاف استعمال کر کے شاید پنجاب کے عوام کو فریب میں رکھ سکتے ہیں ، مگر یقین کیجیے بلوچ عوام کو آپ دھو کہ نہیں دے سکتے۔ ہماری قوم کا ایک ایک فرد، ایک ایک گھر آپ کے مکروہ چہرے سے واقف ہے ، آپ کی جبر اور بر بریت سے واقف ہے۔ بلوچ قوم آپ کی دھوکہ دہی سے واقف ہے ، آپ کی بلوچستان میں تاریخ دھوکہ ، فریب اور جبر پر مبنی ہے۔ جس طرح 1959 میں آپ نے جب بلوچوں کے بزرگ لیڈر نوروز خان کو قرآن کے نام پر دھو کہ دیا، بلوچ قوم آج تک اس دھو کہ اور فریب کو نہیں بھول پائی ہے، تو یہ بلوچ قوم آپ کے آج کے جبر اور بر بریت کو کیسے درگزر کرے گی؟
آج جب میں ریاست کی ایک پر امن سیاسی تحریک کو ڈیل کرنے کی اپروچ کو دیکھتی ہوں تو میں حیران ہوتی ہوں کہ واقعی ایکیسویں صدی میں ریاستیں اس طرح ہوتی ہیں ؟ میں کی پر امن کی کیا 21 ویں صدی میں دنیا کی ریشنل ریاستیں پُر امن سیاسی تحریکوں کو سمجھنے اور ان کے ساتھ ڈائیلاگ کرنے کے بجائے اربوں روپوں خرچ کر کے پروپیگنڈہ فوج بناتی ہیں تا کہ اس اس کے پر امن سیاست تحریک کے خلاف بیانیہ بنایا جائے؟ کیا اس ریاست کی ریشنلٹی اس اس قدر قدر ختم ہو چکی ہے کہ ایک قوم کے ہر گھر کو زخمی کرنے، ہر گھر کو تکلیف اور اذیت دینے ، ہر گھر کی عزت و نفس کو پال کرانے کے بعد اس قوم کے عوامی تحریک کو چند کے تخمیر صافیوں کے پر پینڈے ختم کیا جاسکتاہے یقین مجھے اکیسویں صدی بے پروپیگنڈہ کیجیے، سے ؟ میں اس طرح ایک دکان کو بھی نہیں چلا یا جاتا جیسا کہ یہ لوگ ایک ریاست چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بی وائی کی حالیہ عرصے میں بلوچ نسل کشی کے خلاف ایک منظم عوامی تحریک ہے، لیکن یہ نہ بلوچوں کی پہلی تحریک و تنظیم ہے، نہ یہ آخری تنظیم و تحریک ہے۔ اگر آپ ہے، یہ کے ناکام ریاستی ادارے اس نیت سے بلوچ کجہتی کمیٹی پر کریک ڈاؤن کر رہے ہیں کہ اس کے بعد بلوچستان میں بلوچ عوام کی تحریک کو کمزور کیا جائے گا تو آپ اپنے آپ کو ایک فریب اور دھوکے میں رکھ رہے ہیں۔ بلوچ تحریک کا مرکز بلوچ عوام ہے اور قومی حقوق کے لیے قربان ہونے کا فلسفہ ہے۔ اس تحریک کی طاقت یہی ہے کہ یہ بلوچ عوام کی تحریک ہے۔
آپ کے ریاستی جبر کا ٹارگٹ بلا تفریق بلوچ عوام ہے اور بلوچ عوام گزشتہ سات دہائیوں سے آپ کے ظلم اور جبر کو برداشت کرتے آرہے ہیں، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ قوم بھی بھی آپ کے جبر کے خلاف ایک لمحے کے لیے بھی خاموش نہیں ہوئی ہے۔ 77 سالوں سے بلوچ قوم اس تحریک کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ آج میں آپ پر ایک چیز واضح کرنا چاہتی ہوں کہ تنظیمیں فقط اس تحریک کا جزو ہو سکتی ہیں مگر بذات خود تحریک نہیں ہیں، آپ تنظیم کو وقتی طور پر شاید دبا سکتے ہوں لیکن آپ ایک تحریک کسی بھی صورت دبا نہیں سکتے ہوں اور ہماری تاریخ یخ گواہ ہے کہ ریاست نے جتنے شدت سے بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کی کو شش کی ہے تو اس کے رد عمل میں تحریک زیادہ شدت سے ابھری ہے اور اس دفعہ یہ تحریک ماضی کے نسبت زیادہ منظم انداز میں ابھر رہی ہے۔
کرتے رہیں گے اور یہ بلوچ قومی تحریک کی سب expose آج بلوچ قوم حوصلے کے ساتھ اس سخت گھڑی کا سامنا کرے گی، آپ کے جبر کے نظام کے ہر ہر زاویے کو ہم سے بڑی کامیابی ہے۔ 20 سال پہلے بلوچ قوم کے مردوں کو جیل میں ڈالا گیا، انہیں گمشدہ کر کے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں، مگر آج ان کی خواتین بھی آپ کے ظلم ہے، لیکن آپ اپنے Indigenous کے نظام کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ بلوچ تحریک ایک حقیقی عوامی تحریک ہے اور اپنے نیچر میں مکمل طور پر ناکامیوں کو چھپانے کے لیے مسلسل اس پر بیرونی فنڈنگ کے الزامات لگا کر اس تحریک کو متنازعہ کرنے کی کوشش کرتے ہو، لیکن آج یہ تحریک اس خطے کی سب سے بڑی منظم عوامی تحریک ہے۔
آج آپ نے بلوچستان بھر میں 144 نافذ کر کے غیر اعلانیہ مارشل لاء نافذ کیا ہے ، عدالتوں میں ریاستی ایجنسی اپنے دباؤ برقرار رکھے ہوئے ہیں، اختر مینگل پر قاتلانہ حملہ میں لیے گئے ہیں جہاں تمام جنگی منافعہ خور اور پیدا گیر بیٹھے Apex Committee کروایا جاتا ہے۔ یہ نا ہے۔ یہ تمام سطحی محی ، بچگانہ اور زمینی حقائو حقائق کے برعکس فیصلے اس نام نہاد ہوئے ہیں، جنہیں نہ بلوچ عوام کی نفسیات کے بارے میں کچھ معلوم ہے اور نہ ہی بلوچستان کے حقیقی حالات کے بارے میں کچھ اندازہ ہے، بس ایک پرو پیگنڈہ فوج بنا کر مطمئن ہیں کہ ہم پروپیگنڈہ اور جھوٹے بیانیے بنا کر طاقت اور بندوق کے زور پر ہمیشہ بلوچستان پر حکمرانی کرتے رہیں گے۔ اور میڈیا میں بیٹھ کر بلوچستان میں آرام سے فوجی آپریشن کے لیے بیانیہ بنارہے ہیں۔ ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ ہیں کہ 1948 سے آج تک بلوچستان میں کب آپریشن نہیں ہوا؟ ؟ نہیں ہوا؟ ابھی صرف گزشتہ تین مہینوں کے دوران بلوچستان سے 500 کے قریب افراد کو جبری گمشدہ کا یب افراد کو جبری گمشدہ کیا گیا اور تین درجن کے قریب افراد ماورا فراد ماورائے عدالت قتل کیے گئے ، اس کے علاوہ آپ کیسے آپریشن کر سکتے ہیں ؟
آج پورا بلوچستان آپ کے اس جبر کے خلاف سراپا احتجاج ہے، بلوچستان کی سڑکیں پچھلے دس دنوں سے مکمل بند ہیں، اور بی وائی سی نے ہمیشہ بلوچ لا پتہ افراد کے لواحقین پر ریاستی کریک ڈاؤن کا مقصد بلوچستان میں جاری بلوچ نسل کشی کے خلاف BYC کے دھرنوں اور احتجاجی کالز کی حمایت کی، ان کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔ آج تحریک کو متاثر کرنا ہے لیکن ہمیں اس ریاستی جبر کے خلاف اس تحریک کو مزید منظم کرنا ہے اور ہمارے قومی فرض ہیں۔
میرد میری خواہش تھی کہ وہ قید تنہا تنہائی جہاں جہاں میرے ، والد والد نے نے ا۔ اپنے قید کے تین سال گزارے، میں اس قید تنہائی تنہائی کو کو جی جی سکوں۔ جس لمحے ہدہ جیل کے دروازے میرے ۔ لیے کھولے گئے ، مجھے اپنے سیاسی استاد کی ہنسی یاد آئی جو اکثر ملاقات کے وقت جالی کے اس پار سے نظر آتی۔ ایسا لگا جیسے وہ میرا ہاتھ تھامنے خود آئے اور مجھے گاڑی سے نکالا۔ میں ریاست کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری قید کے لیے ہدہ جیل کا انتخاب کیا، یہ جگہ میری تکلیف کا مرکز تھی، یہاں کئی عیدیں میں نے اپنے والد کو ملاقات والے کمرے کے جالی کے اس پار دیکھا، اور یہ جگہ میرا حوصلہ کا سبب بھی بنے گی۔ میں ان دیواروں کو ہر دن چھو کر اپنے بہادر والد اور ان کے گمنام ساتھیوں کی قربانیوں کو محسوس کرتی ہوں، جنہوں نے ہمارے کا ے کل کے لیے اپنا آج قربان کیا۔
اس عید ہم لا پتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ پریس کلب میں موجود شرکت نہیں کر سکتے مگر ہم کوئی نمبر 5 سے ایک خاموش احتجاج کر رہے ہیں، اپنے ان بھائیوں کے نام جو بلوچ شناخت کے بنا پر غیر انسانی تشدد کے شکار ہیں۔
یہ میری زندگی کی خواہش تھی کہ میں اس جگہ جا سکوں جہاں میرے والد کو رکھا گیا، جہاں انہیں ٹارچر کیا گیا۔ میں اس آخری لمحے کو جینا چاہتی تھی جو ان کا آخری لمحہ تھا۔ قید و ، ند ، کسی سیاسی کارکن کو کمزور نہیں کر سکتے ۔ ہم جب اس راستے پر قدم رکھتے ہیں تو ہمیں یہ یقین کر نا پڑتا ہے کہ یہ راستہ وقتی طور پر ہم سمیت یہ راستہ وقتی طور پر ہم سمیت ہمارے خاندان کے لیے تکلیفیں بڑھائے گا، مگر مستقل بنیادوں پر یہ ہمارے خو شحال مستقبل کا باعث بنے گا۔
اس قید تنہائی میں آج بھی میرا دل ہر اس ماں کے لیے دھڑکتا ہے جو بلوچ لانگ مارچ میں میرے ساتھی تھی، جن کے بیٹے گمشدہ ہیں۔ میں اس عید ان کے ساتھ نہیں ، وہ مجھ سمیت تمام ساتھیوں کے لیے پریشان ہیں، مگر یہ پریشانی اور دکھ کا دن نہیں، حوصلہ کا دن ہے۔ ہمارا دشمن جبر کے جتنے نئے دروازے کھول کر جس طرح ظلم اور جبر کا مظاہرہ کر رہا ہے ، وہ ہمارے سرز سر زمین پر انصاف اور امن کے دنوں کے قریب لے آرہا ہے۔
آج مجھے یقین ہو گیا جب میرے والد نے کہا کہ مجھے تنگ کرنے کے لیے ریاست نے میری گمشدگی کے دوران مجھے ایک دن اخبار پر روٹی لپیٹ کر دی، اس اخبار میں نواب اکبر بگٹی کی شہادت کی خبر تھی، جس نے مجھے ایک عرصے تک پریشان اور بیمار رکھا۔ اس ٹارچر سیل میں ہر نئے آنے والے قیدی سے انہوں نے اپنے سیاسی ساتھوں کا احوال پوچھا، انہیں اپنے بچوں اور بیوی کی فکر نہیں تھی، اگر فکر تھی تو اپنی قوم کی۔ تو میرے ہم وطنوں، آج بھی ہر ساتھی جو یہ ساتھی جو یہاں قید میں ہے ، انہیں صرف تو ،، انہیں صرف اپنے قوم کی فکر ہے۔ میں وکیل، جیل کے سپاہی، دربان سے بس یہی پوچھتی ہوں کہ سمی، شاہ جی اور دوسرے ساتھیوں کا احوال دیں، اور میرے قوم کی ثابت قدمی ہی ہمارے ہر لا پتہ پیارے کا بدلہ اور اس کا حوصلہ ہے۔
یہ ریاست جس نے ہزاروں گھر اجاڑے، یہ تحریک ان اجاڑے گھروں کو بسانے کے لیے ہے۔ ریاست کے ہر جبر ، جھوٹ کا سامنا ہم ہمت، حوصلہ اور منظم جد وجہد سے کرے گے ، جو ہمیں توڑنا چاہتے ہیں ، ان کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونا ہے۔ لاشیں گرانے والی ریاست کا سا منا حوصلہ مند بلوچ قوم سے ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ
ہدہ جیل کوئٹہ
مورخہ: 31 مارچ / 2025