
بلوچستان میں حالیہ مہینوں کے دوران ریاستی اداروں کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ جبری گمشدگیوں، انسانی حقوق کے کارکنان کی گرفتاریوں، سیاسی سرگرمیوں پر پابندیوں اور لاپتہ افراد کے حراست کے دوران قتل کے واقعات میں تیزی آ چکی ہے۔ یہ صورتحال نہایت تشویشناک اور ناقابلِ قبول ہے۔
یہ بات وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (VBMP) کے نائب صدر ماما قدیر بلوچ نے وی بی ایم پی کے احتجاجی کیمپ میں مختلف وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ اتوار کے روز کیمپ کو مسلسل 5787 دن مکمل ہو چکے۔ اس موقع پر بی ایس او (پجار) کے سینٹرل کمیٹی ممبر ایم جے بلوچ، کلات سے سیاسی و سماجی کارکن حاجی منیر احمد شاہوانی، درمحمد بلوچ سمیت دیگر مرد و خواتین نے کیمپ آ کر اظہارِ یکجہتی کیا۔
ماما قدیر نے کہا کہ کوہنگ، کلات کے رہائشی 28 سالہ عبدالمالک ولد محمد یوسف کو 11 اکتوبر 2024 کو تربت سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، اور گزشتہ شب انھیں باغبانہ میں ایک جعلی مقابلے میں قتل کر دیا گیا۔ ان کے اہلِ خانہ طویل عرصے سے ان کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہے تھے، لیکن ریاستی اداروں نے انھیں رہا کرنے کے بجائے حراست کے دوران قتل کر دیا۔ یہ اقدامات دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ خود ریاستی دہشت گردی کی واضح مثال ہیں۔
انھوں نے بارکھان سے جبری لاپتہ سلطان بلوچ کی جبری گمشدگی پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ 13 اپریل 2015 سے لاپتہ ظہیر کے اہلِ خانہ کا انتظار ایک دہائی پر محیط ہو چکا ہے۔ ان کے کم سن بچے اب جوان ہو چکے ہیں، مگر ریاست اب بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ یہ مظالم ناقابلِ برداشت ہیں ان کا احتساب اور فوری خاتمہ ناگزیر ہے۔