
حکومت بلوچستان کی جانب سے ایک اعلیٰ سطحی وفد، جس میں سابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ درانی، اور صوبائی وزیر تعلیم شامل تھے، نے آج لک پاس دھرنا گاہ کا دورہ کیا اور سردار اختر مینگل سے مذاکرات کی کوشش کی۔
یہ حکومتی سطح پر بھیجا گیا تیسرا وفد تھا۔ اس سے قبل دو مذاکراتی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں، جس کے بعد سردار اختر مینگل نے 6 اپریل کو دھرنا ختم کرکے کوئٹہ کی طرف احتجاجی مارچ کا اعلان کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، حکومتی وفد نے دھرنے کے شرکاء سے پرامن حل کی اپیل کی اور ان کے مطالبات پر سنجیدہ گفتگو کی کوشش کی۔ تاہم، فی الحال مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
سردار اختر مینگل کی قیادت میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر گرفتار افراد کی رہائی کے مطالبے پر کئی دنوں سے لک پاس میں دھرنا جاری ہے۔ دھرنے کے شرکاء کا کہنا ہے کہ جب تک مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے، احتجاج جاری رہے گا۔
بلوچستان کی سیاسی صورتحال اس وقت نازک موڑ پر ہے۔ اگر 6 اپریل کو کوئٹہ کی طرف احتجاجی مارچ ہوا تو حالات مزید کشیدہ ہونے کا خدشہ ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، تمام تر توجہ سردار اختر مینگل اور حکومتی وفد کے درمیان ہونے والی اس اہم ملاقات پر مرکوز ہے، جو آئندہ کے سیاسی منظرنامے کا رخ متعین کر سکتی ہے۔