ماہ رنگ، سمی، بیبو بلوچ: جبر کے اندھیروں میں روشنی کی علامت

تحریر رامین بلوچ (آخری حصہ)
زرمبش اردو

ماہ رنگ کی گرفتاری صرف ایک فرد کی گرفتاری نہیں، یہ ایک نظریے کو چیلنج کرنے کی کوشش ہے۔ مگر نظریات کبھی شکست نہیں کھاتے۔ وہ زمین کی طرح زرخیز ہوتے ہیں، ایک کو دبایا جاتا ہے تو ہزار نکل آتے ہیں۔ آج ماہ رنگ جیل میں ہیں، مگر ان کے الفاظ، ان کے خواب، ان کی مزاحمت آزاد ہے۔

یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ "ہر اندھیری رات کے بعد سحر ضرور ہوتی ہے۔” (رومی) ماہ رنگ ایک چاند کی طرح ہیں، اور چاند کو کوئی قید نہیں کر سکتا۔ وہ ہمیشہ چمکتا ہے، اندھیروں میں بھی، قید میں بھی، اور ہر بار نئے عزم کے ساتھ۔

بلوچستان کی تاریخ سیاسی جدوجہد، مزاحمت اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی ایک طویل داستان ہے۔ یہاں کے عوام دہائیوں سے ریاستی جبر، جبری گمشدگیوں اور بنیادی انسانی حقوق سے محرومی کا سامنا کر رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں، انسانی حقوق کی تنظیمیں، بین الاقوامی ادارے، اور ذرائع ابلاغ بلوچستان میں ہونے والی ان خلاف ورزیوں کو اجاگر کرتے رہے ہیں۔ مگر اس کے باوجود، بلوچستان میں نہ صرف سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں پر ریاستی دباؤ برقرار ہے بلکہ ان کی آواز دبانے کے لیے انہیں جیلوں میں ڈالنے اور غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اسی ریاستی جبر کا تازہ ترین شکار ہیں۔ ایک تعلیم یافتہ، سیاسی طور پر باشعور اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن کے طور پر وہ نہ صرف بلوچ عوام کے لیے ایک امید کا استعارہ ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی انسانی حقوق کے لیے ایک توانا آواز بن چکی ہیں۔ انہیں بین الاقوامی ادارے جیسے بی بی سی، ٹائمز میگزین اور نوبل امن کمیٹی انسانی حقوق کے دفاع میں ان کی خدمات کے اعتراف میں نامزد کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود، ریاست نے انہیں جھوٹے، بے بنیاد اور سیاسی انتقام پر مبنی الزامات کے تحت گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری اور ان کے ساتھ جیل میں ہونے والا سلوک بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی علامت ہے۔ اطلاعات کے مطابق، ان کے سیل کے چاروں اطراف نگرانی کے سخت ترین اقدامات کیے گئے ہیں، یہاں تک کہ ان کی پرائیویسی کے حق کو بھی پامال کرتے ہوئے کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔ انہیں لواحقین سے ملنے نہیں دیا جا رہا، اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ انہیں صاف کھانے اور طبی سہولیات سے محروم رکھا جا رہا ہے، جس سے ان کی صحت بگڑنے کا خدشہ ہے۔

یہ تمام اقدامات بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین، آئینِ پاکستان، اور عدالتی احکامات کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ سیاسی قیدیوں کو بنیادی حقوق دینے کا عالمی اصول موجود ہے، مگر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ کیے جانے والے غیر آئینی سلوک سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ریاست انہیں ذہنی اور جسمانی اذیت کا شکار بنا کر ان کی جدوجہد کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ ریاست نے بلوچ عوام کی سیاسی آواز کو دبانے کے لیے ایسے اقدامات کیے ہوں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا پس منظر بھی اسی ریاستی جبر کی ایک مثال ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری نے عالمی سطح پر بھی تشویش پیدا کی ہے۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کو اس غیر قانونی حراست پر آواز بلند کرنی چاہیے۔ اقوامِ متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کو اس معاملے پر پاکستان حکومت سے وضاحت طلب کرنی چاہیے اور اس غیر آئینی گرفتاری کے خلاف عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔

بلوچ عوام کے مزاحمتی جدوجہد جاری رکھنے کے سوا کوئی دوسراراستہ نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظلم اور جبر کے ذریعے کسی بھی قوم کی تحریک کو دبایا نہیں جا سکا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی غیر قانونی گرفتاری، جیل میں ان کے ساتھ روا رکھا جانے والا غیر انسانی سلوک، اور بنیادی حقوق سے محرومی اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست طاقت کے ذریعے مزاحمت کو ختم کرنا چاہتی ہے، مگر تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جبری گمشدگیوں، قید و بند، اور تشدد کے باوجود بھی حق کی آواز دبائی نہیں جا سکتی۔

ریاست کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو فوری طور پر رہا کرے اور انہیں ان کے قانونی و انسانی حقوق فراہم کرے۔ بلوچ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی جدوجہد کو جاری رکھتے ہوئے ہر محاذ پر اپنی آواز بلند کریں تاکہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دنیا کے سامنے لایا جا سکے۔ یہ نہ صرف ایک سیاسی مسئلہ ہے بلکہ یہ انسانی وقار اور بنیادی حقوق کا سوال بھی ہے، اور ان حقوق کے حصول کے لیے ہر ممکن جدوجہد ناگزیر ہے بلوچستان کی سرزمین پر جدوجہد کی جو داستانیں بکھری پڑی ہیں، ان میں ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کا نام کسی نئے باب کی صورت ابھر رہا ہے۔ بیبو بلوچ کا خدشہ کہ ڈاکٹر مہرنگ کی زندگی خطرے میں ہے، محض ایک فرد کی زندگی کا معاملہ نہیں بلکہ ایک پوری تحریک کی سلامتی سے جڑا ہوا سوال ہے۔

بیبو بلوچ کی زبانی جو حالات سامنے آ رہے ہیں، وہ ہمیں نہ صرف اس استبداد کی یاد دلاتے ہیں جو ہر اس شخص پر مسلط کیا جاتا ہے جو سچائی کا پرچم بلند کرتا ہے بلکہ یہ ہمیں ان تاریخی شخصیات کی قربانیوں کی طرف بھی لے جاتے ہیں جو ظلم کے خلاف ڈٹ گئیں، چاہے وہ ماہ رنگ سمی ہو، بھگت سنگھ ہو یا آج کی مہرنگ بلوچ۔
ماہ رنگ سمی بیبو اور دیگر بلوچ بہنیں۔ ایک ایسی سماج میں جبر کے خلاف آواز بلند کر رہی تھیں، جہاں اقتدار کی قوتیں اپنے مخالفین کو خاموش کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتی ہیں۔ سمی نے زندگی بھر بلوچ عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کی، قید و بند کی صعوبتیں سہیں، اور اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا۔

بھگت سنگھ کی جدوجہد کو دیکھیں تو وہ بھی استعماری جبر کے خلاف ایک پکار تھی۔ ان کی زندگی کا مشن یہ ثابت کرنا تھا کہ جبر ہمیشہ طاقت سے نہیں بلکہ نظریے سے شکست کھاتا ہے۔ بھگت سنگھ کو پھانسی دے کر برطانوی سامراج نے سمجھا تھا کہ وہ مزاحمت کو ختم کر دے گا، لیکن ان کی شہادت نے جدوجہد کو اور زیادہ قوت دی۔
یہی اصول مہرنگ بلوچ کے لیے بھی لاگو ہوتا ہے۔ ان پر بڑھتا ہوا دباؤ، جیل میں خفیہ کیمرے، مشکوک اہلکاروں کی تعیناتی اور خوراک میں ممکنہ رد و بدل، یہ سب اس بات کا اظہار ہیں کہ ان کی موجودگی قابض قوتوں کے لیے کس قدر خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ لیکن کیا تاریخ میں کبھی ایسے حربے سچائی کو روک سکے ہیں؟

اگر ہم تاریخ کو دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہر دور میں اقتدار نے آزادی کے متوالوں کو دبانے کی کوشش کی، مگر کامیابی ہمیشہ ان ہی کے حصے میں آئی جنہوں نے مزاحمت کی راہ اختیار کی۔ ماہ رنگ سمی اور بھگت سنگھ کی طرح، ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی جدوجہد بھی محض ان کی ذاتی آزادی کی جنگ نہیں، بلکہ یہ ایک اجتماعی شعور کی بیداری کا سفر ہے۔ اگر تاریخ نے ہمیں کچھ سکھایا ہے تو وہ یہ ہے کہ ظلم عارضی ہوتا ہے، مگر سچائی کی روشنی ہمیشہ باقی رہتی ہے۔

بیبو بلوچ کی یہ اپیل کہ تمام انسان دوست، قوم دوست، اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے کردار ادا کریں، وقت کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسے لمحے کی صدا ہے جہاں خاموشی بھی جبر کا ساتھ دینے کے مترادف ہوگی۔ تاریخ گواہ ہے کہ مزاحمت وہی کامیاب ہوتی ہے جو اجتماعی شعور کا حصہ بن جاتی ہے، اور اگر مہرنگ بلوچ کی زندگی کو کچھ بھی نقصان پہنچا تو یہ صرف ایک فرد کا نقصان نہیں ہوگا، بلکہ یہ پوری جدوجہد کے خلاف ایک سنگین حملہ ہوگا۔
لہٰذا، یہ وقت ہے کہ ہم ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی آواز بنیں، ان کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، اور یہ ثابت کریں کہ تاریخ میں ہمیشہ جبر کے خلاف مزاحمت کرنے والے ہی سرخرو ہوتے ہیں دنیا کے ہر کونے میں، جہاں کہیں بھی آزادی پر قدغن لگی، ظلم کے سائے گہرے ہوئے، یا حق کی آواز دبانے کی کوشش کی گئی، وہاں کسی نہ کسی ماہ رنگ نے، کسی نہ کسی جھانسی کی رانی نے، کسی نہ کسی الجزائر کی خاتون نے یا کسی کرد مزاحمت کار نے مزاحمت کی مشعل جلائی۔ تاریخ کی گلیوں میں چلیں تو ہمیں یہ کہانیاں کچلے ہوئے خوابوں، بہتے ہوئے خون اور جلتے ہوئے دیوں کی صورت میں دکھائی دیتی ہیں۔

ڈاکٹر ماہ رنگ کا تعلق بلوچستان کے ایک ایسے گھرانے سے تھا جو زمین کی محبت اور آزادی کے خواب میں بسا تھا۔ وہ ایک عام لڑکی نہ تھی، اس کی آنکھوں میں روشنی تھی، ذہن میں بغاوت اور ہاتھوں میں علم کا چراغ۔ اس نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ظلم کے خلاف خطرناک ہتھیار شعور ہوتا ہے۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیاں ایک کھلی حقیقت تھیں۔ وہ دن جب اس کے والد کو نامعلوم افراد نے اٹھا لیا، ماہ رنگ کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ تھا۔ اس نے اپنی ذات کی تمام کمزوریوں کو توڑ ڈالا اور اپنے لوگوں کے لیے لڑنے کا عہد کر لیا۔ وہ زخمیوں کا علاج بھی کرتی اور احتجاجی مظاہروں میں بھی شریک ہوتی۔ وہ جب بولتی تو لفظ نہیں، بارود گرتے۔ اس کی تقریریں طاقتور، تحریریں زہر اور نگاہیں بغاوت سے بھرپور تھیں
اگر تاریخ کی طرف پلٹیں، تو ہندوستان کی جنگ آزادی میں جھانسی کی رانی لکشمبائی کا نام سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے۔ برطانوی سامراج کے خلاف اس کی مزاحمت صرف جنگی مہارت کا نمونہ نہیں تھی بلکہ ایک عورت کی آزادی کی خواہش کا بھی اظہار تھا۔

لکشمبائی نے صرف 29 سال کی عمر میں انگریزوں کے خلاف اپنی فوج تیار کی۔ اس کے ہاتھ میں تلوار تھی، پیٹھ پر بیٹا اور دل میں بے خوفی۔ جب انگریزوں نے جھانسی پر حملہ کیا، تو اس نے آخری دم تک جنگ کی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ صرف زمین کی نہیں، خودمختاری کی جنگ ہے۔فرانسیسی استعمار کے خلاف الجزائر کی آزادی کی جنگ میں عورتوں کا کردار غیر معمولی تھا۔ فاطمہ نصرہ اور جمیلہ بوحیرد جیسی خواتین نے نہ صرف مزاحمت کی، بلکہ فرنٹ لائن پر لڑیں، جیلوں میں اذیتیں برداشت کیں اور پھر بھی سر نہیں جھکایا۔

جمیلہ بوحیرد ایک نرس تھی، مگر پھر اس نے آزادی کی جدوجہد میں قدم رکھا۔ فرانسیسی فوج نے اسے گرفتار کر کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا، لیکن اس کے عزم کو توڑ نہ سکے۔ جب اس پر مقدمہ چلا تو اس نے صاف کہا، "ہاں، میں نے اپنی سرزمین کے لیے جنگ لڑی، اگر یہ جرم ہے تو میں اس پر فخر کرتی ہوں۔”
کرد خواتین کی جدوجہد دنیا کی سب سے دلیر مزاحمتوں میں شمار کی جاتی ہے۔ YPJ (ویمن پروٹیکشن یونٹس) کی جنگجو خواتین نے شام اور عراق میں نہ صرف داعش جیسے دہشت گردوں کے خلاف لڑائی لڑی، بلکہ اپنی قوم کے وجود کی جنگ بھی لڑی۔
حالات کچھ بھی ہوں، یہ خواتین ہتھیار ڈالنے کے لیے نہیں بنی تھیں۔ وہ بندوق اٹھائے اپنی زمین، اپنی شناخت اور اپنی آزادی کے لیے لڑتی رہیں۔ وہ صرف جنگجو نہیں تھیں، وہ شاعرائیں بھی تھیں، معلمائیں بھی اور لیڈرز بھی۔

یہ سب کہانیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ ایک ہی روح، ایک ہی بغاوت، ایک ہی قربانی۔ ڈاکٹر ماہ رنگ جب بلوچستان کی سڑکوں پر نکلی، تو وہ جھانسی کی رانی کی وارث تھی۔ جب الجزائر کی گلیوں میں خواتین نے اپنے لہو سے تاریخ لکھی، تو وہ کرد خواتین کی بہنیں تھیں۔ اور جب کرد جنگجوؤں نے دشمنوں کے خلاف مورچہ سنبھالا، تو وہ الجزائر کی جمیلہ بوحیرد کی ہمشکل تھیں۔
یہ کہانیاں کبھی نہیں مرتیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ آج بھی کسی نہ کسی سرزمین میں ایک نئی شکل میں زندہ ہے۔ وہ بلوچستان کی ہو، یا کسی اور مظلوم قوم کی، وہ ہمیشہ مزاحمت کی علامت رہے گی۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

انسانی حقوق کی تنظیمیں نوجوان شاعر نبیل نود کی بازیابی کے لیے آواز اٹھائیں، لواحقین

ہفتہ اپریل 5 , 2025
گوادر میں پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں زبردستی اغوا ہونے والے بلوچی زبان کے نوجوان اور معروف شاعر نبیل نود بلوچ کے اہل خانہ نے ان کی جبری گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کی بازیابی کے لیے آواز اٹھانے کی اپیل کی ہے۔ اہل خانہ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ