تحریر: کوہ زاد بلوچ
زرمبش اردو

گہری سوچوں میں گم، میں ہینڈ فون لگائے "مناں ھیالا نی جنگل آں بر مناں مئی واب آں گو رول بِل دے” یہ گانا سن رہا تھا۔ یار، اتفاق تو دیکھیں، جب اپنے خیالات کے انبار کو سائیڈ پر رکھ کر سونے کی طرف متوجہ ہوا، تو شاعر کا پیغام تھا: خیالات کے جنگل میں مجھے لے جاؤ، اور میں ابھی اسی جنگل میں ٹہل رہا تھا۔ مگر یہ بات عجیب ہے کہ ایک ایسی سوچ، جو شاید ناممکن ہو اور میری خیالی خواہش ہو، وہ سوچ یہ تھی کہ جیسے میں بندوق اٹھا کر تمہارا ہاتھ تھامے پہاڑوں میں بہتے پانی کے کنارے پر چل رہا تھا۔ اگر یہ خواہش کبھی پوری ہو تو دعا کروں گا کہ وہ پہاڑ بولان کے ہوں اور بندوق آزادی کے لیے ہو، اور ہم دونوں سنگت ہوں، اور اس کاروان کے ہمراہ بہترین دوست کے طور پر محوِ سفر ہوں۔ پھر کیا ہوگا؟
اسی سوچ میں گم تھا کہ دوست نے سوت تبدیل کرنے کا کہا۔ میں اتنی گہری سوچوں میں تھا کہ یہ تک بھول گیا تھا کہ ہمارے پاس ایک فون ہے اور ہم دونوں اسی سے گانے سن رہے ہیں۔ مگر جب بات تمہاری ہو یا تمہاری سوچوں میں تم ہو، تو سب کچھ بھلا دینا کوئی بڑی بات نہیں اور نہ ہی حیران کن ہے۔ اس کی بات سے سوچوں کا تسلسل تو ٹوٹ گیا، مگر مجھے دل ہی دل میں تمہاری تعریف کا خیال آیا، یار یہ: "ماہک، کیسے آدمی ہیں؟ شفیق استاد، مہربان دوست، سب کچھ قربان کرنے والا جانباز، تمام رشتوں کی کمی کو پورا کرنے والا۔ کیا وہ کوئی فرشتہ ہے؟ نہیں، نہیں! فرشتے سے تو انسان بہتر ہے، تو پھر، دیوتا؟ نہیں، تو پھر میرے لیے شاید وہ کامل انسان ہے۔
یہ سفر ماہک کی جنم بھومی ڈیرہ غازی خان کی طرف تھا، جہاں ہم پاک کام کی غرض سے اس بلوچ سرزمین کی طرف جا رہے تھے۔ جب ارادے نیک ہوں اور دل محبت سے سرشار ہو، تو کام اور مقصد دونوں ہی پاک بن جاتے ہیں۔ دیرو، جہاں تمہارا جنم ہوا اور بچپن گزرا، حسین، دلکش اور پر مسرت ہے۔ یہ سفر اِس بار اس لیے بھی تھا کہ تمہارے محلے کو دیکھنا تھا، وہاں فوٹو گرافی کرنی تھی، اور پھر تمہیں تنگ کرنا تھا۔ ہر جگہ کے بارے میں الگ ڈبیٹ کرنی تھی اور اُن خوش نصیب لوگوں کو بھی دیکھنا تھا، جنہیں تم ہر پل میسر ہو۔ سوچا کہ تمہیں بتا دوں، مگر پھر خیال آیا کہ بتا دیا تو چھیڑوں گا کیسے؟ پھر اجتناب کیا، مگر سچ پوچھو تو آخر میں تیری تصویر کھول کر میں نے موبائل کو سینے سے لگایا اور تیرے وجود اور سفر میں ساتھ ہونے کا ناممکن یقین خود کو دلاتا رہا، مگر جانتا بھی تھا کہ فزیکلی تم ساتھ نہیں ہو۔
میرا دھیان سفر سے زیادہ میری سوچوں کے خیالی سفر پر تھا۔ ابھی میں تھا اور صرف ماہک تھی، وہ دوست جو میرے ساتھ تھا، میں اسے بھی بھلا چکا تھا۔ میں سرزمین کو دیکھ کر تمہارے اس ڈبیٹ کو یاد کر رہا تھا کہ خدا نے ہمیں تمام نعمتیں دیں، پر ہم ان کی حفاظت نہیں کر پائے، اب ان کی ملکیت کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ پہاڑ بھی ہمارے ہیں، میدان بھی، مگر ماہک ہر بار کہتی تھی کہ مجھے میدان اچھے لگتے ہیں کیونکہ یہاں ہر وقت رونقیں ہیں، پر میں پہاڑوں کا دیوانہ تھا کیونکہ مجھے تنہائی پسند ہے۔
دیرو کے بارے میں ہمارے جتنے بھی مباحثے ہوئے، میں انہیں پھر سے سوچ رہا تھا اور نئے سوالات و جوابات میرے ذہن میں آ رہے تھے۔ غازی خان اور دیرو کی ساری تاریخ پھر میرے ذہن میں آتی گئی کہ اسی اثنا میں مجھے "I love D G Khan” کا بورڈ نظر آیا اور میں نے اپنا ہاتھ دل پر رکھتے ہوئے خود سے کہا "میں بھی”
(جاری ہے)