بلوچ طلبہ تنظیمیں اور ان کی ذمہ داریاں : تحریر :زبیر بلوچ

طلبہ تنظیم وہ ادارہ ہوتے ہیں جو قوم کےلیے مقدس ہوتے ہیں وہ قوم کی رہنماہی کرتے ہیں قوم کی محرومیوں کو سامنے لاتے ہیں اور قوم کیلے لیڈرشپ پیدا کرتے ہیں ایسے کیڈرز جو قوم کیلے درد رکھتے ہوں جو نسلی ،علاقی۔لسانی۔اور مزہبی جنونیت سے پاک ہو کر ایک قوم کیلے سوچتا ہو ۔قومی بے بسی قومی محرومیاں اس میں سب آتے ہیں سب کیلے ہمہ وقت فکر مند ہو ۔لیکن جب ہم اپنی طلبہ تنظیموں پر نظردوڑایں تو ان میں ہمیں مایوسی ۔نظر آتا ہے قوم کیلے انکا کردار زیرو کے برابر ہے۔ شاید میری باتیں تلخ ہوں کچھ لوگوں کی خلق سے نہ اُتریں مگر میں کیا کروں حقیقت بہت تلخ ہوتا ہے ۔مگر میرے اس تہریر کا مقصد ہر گز ایک تنظیم کا دفاع اور دوسرےکو پروپیکینڈا نما تنقید کرنا نہیں ہے اس میں تمام طلبہ تنظیمیں آتے ہیں اور کونسلز بھی ہیں ۔

مگر بہت افسوس سے کہنا پڑھتا ہے کہ یہ اپنی اصل ٹریک کو چھوڈ کر ایک ایسے ٹریک پر ہیں جس کی منزل کا پتہ بھی کسی کو نہ ہو ۔لیکن یہ اپنے پاور کو بھی بھول کر اور نظریہ کو چھوڈ کر اب جی حضوری پر لگے ہوے ہیں ۔ اگر ہم زیادہ غور کریں تو ان طلبہ تنظیموں کی آپسی اختلافات اور تنظیموں کو توڈ کر دوسرے تنظیم کا بنا سب کا سبب صرف اور صرف شوق لیڈری ہی ہوتا ہے کہ مجھے سربراہ بناو اگر نہ تو میں اپنے لیے الگ تنظیم بناتا ہوں ان میں زیادہ تر انہی وجوہات کی بنیاد پر وجود میں آے ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ بعد میں نوجوانوں کو نظریوتی اختلافات کا جانسا دے کر اپنے آپکو آرضی طورپر مطمیں کرتے ہیں ۔ مگر اس کا حل کبھی تلاش نہیں کر سکتے ہیں ۔میرے کہنے کا مطلب ہے کہ اگر ایک تنظیم کا سربراہ اپنی اس سوچ کی بینا پر الگ تنظیم بناتا ہے تو اس کے ممبرز کا اور اس لیڈر کا کیا نظریہ ہوسکتا ہے جو قوم کیلے سوچے ۔یہ میں صرف ایک کو نہیں بلکہ سب کو کہ رہا ہوں۔ بلکہ ان کی جڑھیں کونسلز ہوتے ہیں کیونکہ جب وہ بلوچستان سے باہر یونیورسٹوں میں ہوتے ہیں پر وہاں ان کی سیاسی تربیت کونسلز کی ذمہ داری ہوتے ہیں ۔ پہلے تو ھم نے بہت سی امیدیں انہی کونسلز پر باندا تھا مگر جب خود یہاں آے توبہت مایوس ہوا ہوں کہ یہاں تو کسی سرداری نظام سے بھی حال برا ہے یہان تو وہ سربراہ جو طلبہ جس کو چُنتے ہیں وہ تو باقاعدہ سب کے پاس جاکر کہتا ہے کہ۔مجھے اوٹ دیں تاکہ میں سربراہ بنو کہنے کا مطلب ہے کہ اگر تعلیمی ادرہوں میں یہ حال ہے اب ہم اور کیا امُید رکھیں ۔

اگر کسی کونسل میں ووٹنگ سسٹم نہیں ہے پر وہاں تو یہ رواج ہے کہ کہتےہیں کہ ہم اس شرط پر آپکو سربراہ مقرر کریں گے کہ اگلی دفعہ اپ ہمارے بات ماں کر ہمارے منتخب کردہ شخص کو سامنے لاہو گے۔ یہ سب بیاں کرنے کا مطلب بھی کونسلز کو بُرا بلا کہنا نہیں ہے ان کو تنقید سمجھ کر اپنے صفون میں بہتری لاہیں اگر ایسے شخص سربراہ بنین گے تو۔جو ہمارے شعور یافتہ طبقہ کو خود سوچھ سمجھ کر سربراہ منتخب کرنے کا حق نہیں ہوتا ہے پر کچھ لوگوں کی منتخب کردہ یا کہوں من پسند شخص پھر اسی طرح اگر کسی طلبہ تنظیم میں جاہیں گے وہاں بھی اسی سوچ کو لے کر جاہین گے کہ ہمارا سب کچھ مانا گیا تو سہی نہ تو ہم اپنا الگ کریں گے ۔ یعنی کہ ہم نے ایسے نوجواںوں کو شعور یا تربیت نہیں دیا ہے کہ وہ تنقید کو تنقید سمجھیں یا اختلاف کو شعوری بنیاد پر دیکھیں ۔اس کے اندر اتنی انا پرسی ۔لالیچ۔ بغض ۔ضد نہ ہو ۔وہ اس بات کو شعوری طورپر احساس کریں کہ سب کچھ وہ ٹیک نہیں ہوتا ہے دوسرے بھی کہیں نہ کہیں بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔وہ خود کہیں نہ کہیں غلط ہو سکتے ہیں اس طرح اگر ہم تربیت کریں گے تو یہ خود ہمارے سربراہوں کی شعور کو ظاہر کرتا ہے۔

بہت دفعہ دوستوں سے بہث ہوتا کہ اگر فلانہ دوست سے کوہی اور ہے جو سربراہی کا اہل ہے پر یہ کیوں تو جواب آتا ہے کہ وہ فلانہ قبیلہ یا بیلٹ کا ہے اگر ان کو نہیں لاہیں گے تو یہ الگ کونسل بناتے ہیں۔ مطلب کہ آپ نے اپنے ممبرز کو اتنا تربیت نہیں کیا ہے کہ وہ اب بھی یونیوریسٹی کے طالب علم ہوکر بھی ایسے سوچ رکھتا ہو یہ سب اپ سربراہاں اور سابق سربراہوں کی کمزوریاں ہیں کہ ایسے سوچ کا خاتمہ نہ کر سکے ہر جگہ بس پارلیمانی سیاست کی طرح لے دے کر مسلوں کو عارضی طورپر دفن کر تو دیا مگر ان کو شعوری طورپر ختم نہ کر سکا سب انہی کمزوریوں کی وجہ سے ایسے سوچ کرکھنے ولوں کو مزید تربیت کی ضرورت ہوتا ہر جگہ کمپروماہیز نہیں ہوسکتا ہے۔یہی سوچ کو لیکر پر طلبہ تنظیموں میں جاتے ہیں وہاں بھی نہیں مانا پر الگ کرنے کی راہ ہموارتے ہیں اسی طرح سب تنظیموں سے شعوریافتہ نوجواں مایوس و پریشاں ہیں کہ کون صیح اور کوں غلط ہے اسی طرح سب آپس میں ایک دوسرے کو بُرا بلا کہ کر نیے نوجوانوںکی شعور کو منتشر کرتے ہیں

حقیقت میں سب ٹیک ہیں بس وقتی اختلافوں کی وجہ سے الگ ہو کر پر سمجھ جاتے ہیں مگر بعد میں اپنی انا کی وجہ سے بس اسی طرح بغض حسد دوسروں کو نیچھا دکھانے کو کوشش میں مصروف ہوتے ہیں کھبی آپسی رنجشوں کو بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں یہ سب شعوریافتہ نہ ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں پر اسی کمزور نظریہ کی بنیاد پر احساس کمتری کا شکار ہو کر کوہی کسی پارلیمانیپارٹی کا پٹو بنتا ہے تو کوہی کوکری کیلے در در کی ٹوکریں کھاتا ہے تو کوہی نوکری لیکر صرف اپنی اور اپنی بچوں کی زندگی کو بھتر بنانے کیلے اتنا مصروف ہوجاتا ہے کہ بھول جاتا ہے کہ کھبی میں نے بھی قومپرستی پر بھی ستن تیں گھنٹہ لکچر دیا کرتا تھا اس طرح موجودہ تنظیموں سےمایوسی کی کیفیت تاری ہوی ہے اور اس وقتی اور مفادی سیاست سے کبھی قومپرست رہنما پیدا نہیں ہوتے ہیں بس چاپلوس اور موقعہ پرست پیدا ہوتے ہیں جو جوقوم پرست نہیں بلکہ انا پرست ہوتے ہیں۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ اس کو صرف تنقید کی حد تک دیکھتے ہیں۔ اورامید کرتا ہوں کہ تمام تنظیمیں آپسی رنجشوں کو بیٹھ کر ختم کر کے قومی مفادوں کو مدنظر رکھ کر مضبوط اور شعوری فیصلہ کریں گے جو قوم کی بہتری کیلے ہو اورایک مضبوط طلبہ تنظیم بناہیں گے جو طلبہ کی بہتر رہنماہی کرسکے اور قوم کیلے مضبوط اور شعور یافتہ رہنما پیدا کرے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

بولان فورسز کیمپ وچوکی سمیت 3 مقامات پر مسلح افراد کا حملہ

ہفتہ مارچ 30 , 2024
بولان میں نامعلوم مسلح افراد نے مین شاہراہ پر واقع سراج آباد کیمپ اور چوکی پر راکٹ لانچرز اور دیگر ہتھیاروں سے حملہ کرکے فورسز کو جانی مالی نقصان پہنچاکر فرار ہوگئے ۔ اس کے علاوہ اطلاعات ہیں کہ بولان پنجرہ پل پر واقع موبائل کمپنی کے ٹاور کو مسلح […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ