تحریر رامین بلوچ — تیسراحصہ
زرمبش اردو

اسلام آباد کی سڑکوں پر جب بلوچ خواتین، نوجوان، اور معصوم بچوں کی لانگ مارچ پر ریاستی مشینری نے کریک ڈاؤن کیا۔ جب ماہ رنگ بلوچ سمیت متعدد بلوچ خواتین اور سینکڑوں نوجوانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا تو شاید ریاست نے سوچا تھا کہ ان حربوں سے یہ واپس لوٹیں گے، خاموشی چھا جائے گی، لیکن یہ ان کی بھول تھی۔
ماہ رنگ کی آواز، جو بلوچستان کی مظلوم ماؤں، بہنوں اور یتیم بچوں کی چیخ و پکار کی ترجمان تھی، جیل کی سلاخوں میں قید نہیں ہو سکی۔ وہ آواز جو کوہِ سلیمان کی چوٹیوں سے لے کر گوادر کے نیلے پانیوں تک گونجتی ہے، وہ سلاخوں میں سمٹنے والی نہیں تھی۔وہ ان آہنی سلاخوں کے اند ر بھی بول رہی تھی وہ مسلسل ریاست کو للکارتے ہوئے کہا۔ جو قوم اپنے جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلتی ہے، اسے جبر کے ذریعے دبایا نہیں جا سکتا۔
ریاستی جبر کے باوجود، ماہ رنگ سمیت تمام گرفتار شدگان کا حوصلہ بلند تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی قید ان کے نظریات کی پرواز کو نہیں روک سکتے۔ گزشتہ دنوں ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ہمراہ بہادر بلوچ خواتین نے ریاستی جبر کے خلاف رواں ماہ جعلی مقابلے میں شہید کیے گئے بلوچ فرزندوں کی لاشوں کی حوالگی اور ان کی خفیہ تدفین کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔ مگر اس پرامن مزاحمت کا جواب وہی تھا جو ہمیشہ مظلوموں کے حصے میں آتا ہے —گولی، آنسو گیس کے شعلے، پانی کی بوچھاڑ، اور گولیوں کی سنسناتی آواز ملی۔ تین نوجوان خاک و خون میں تڑپتے ہوئے شہید کیا گیا اور متعدد زخمی ہوئے۔۔ مظاہرے میں شہید کئے جانے والے ان معصوم شہداء کی جسد خاکی سڑک پر رکھ کر مظاہرین نے احتجاج جاری رکھاء مظاہرین صدمے کی تصویر بنے کھڑے تھے۔۔ مگر ظلم کو یہ بھی کافی نہ تھا۔ علی الصبح، اندھیرے کی اوٹ میں ریاستی درندے ٹوٹ پڑے۔ علی الصبح ریاستی درندے دھرنے میں گھس آئے۔ ماہ رنگ بلوچ اور بیبو سمیت دیگر خواتین کو بھی گرفتار کر کے قید کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔، بیبرگ بلوچ، جو پہلے ہی ریاستی حملوں کے باعث وہیل چیئر تک محدود تھے، انہیں بھی ان کے گھر سے بے رحمی سے اٹھا لیا گیا۔ معصوم خواتین، بزرگ، اور نوجوان سبھی کو گھسیٹ کر قید کی تاریکی میں دھکیل دیا گیا۔ اور پھر، ہمیشہ کی طرح، ظلم کو جواز بخشنے کے لیے ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں پر قتل کے جھوٹے اور بوگس مقدمات قائم کر دیے گئے۔یہ بربریت یہی نہیں رکی۔ شاجی صبغت کو جبری طور پر لاپتا کر دیا گیا۔ مگر اس ریاستی جبر کے باوجود بلوچستان خاموش نہیں رہا۔ آج بلوچستان سراپا احتجاج ہے۔ سڑکوں پر نعرے بلند ہو رہے ہیں، گلی کوچے مزاحمت کی گونج سے لرز رہے ہیں، اور ہر بلوچ ماں کے آنسوؤں میں سوال ہے؟
یہ احتجاج، یہ توانا مزاحمت،ماہ رنگ بلوچ بیبو بلوچ سمی دین اور ان کے ساتھیوں کی رہائی اور صدیوں پر محیط نوآبادیاتی جبر کے خلاف للکار ہے۔ یہ وہ صدائیں ہیں جو گمشدہ بلوچ فرزندوں کی اذیت ناک چیخوں میں گونجتی ہیں، وہ زخمیں جو اجتماعی قبروں سے اٹھتی ہیں، وہ سسکیاں جو زندانوں کی دیواروں سے سر ٹکرا کر رہ جاتی ہیں۔
یہ احتجاج اس وحشی نظام کے خلاف ہے جو ہر روز بلوچ نوجوانوں کی لاشیں بے نام و نشان کرتا ہے، جو ماؤں کی گود اجاڑ کر انہیں ایک ایسے انتظار میں دھکیل دیتا ہے جس کا کوئی انت نہیں۔ مگر بلوچستان کی تاریخ مزاحمت کی تاریخ ہے، یہاں ہر شہید کے لہو سے مزاحمت کے سو دیے روشن ہوتے ہیں، ہر ظلم کے بعد جدوجہد اور شدت اختیار کرتی ہے۔
یہ وہ جنگ ہے جو محض گولیوں سے نہیں لڑی جاتی، بلکہ عزم، حوصلے اور نظریے کی طاقت سے لڑی جاتی ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جو غلامی کے اندھیروں کو چیر کر آزادی کا سورج طلوع کرے گی۔ بلوچ مائیں سوگوار ضرور ہیں، مگر وہ کمزور نہیں۔ ان کی کوکھیں خالی نہیں ہوتیں، وہ ہر شہید کے بدلے نظریاتی فرزند جنم دیتی ہیں، ہر جدوجہد کے بعد ایک نئی تحریک جنم لیتی ہے۔
یہ احتجاج خاموش نہیں ہوگا، یہ مزاحمت تھمنے والی نہیں۔ جب تک اس دھرتی کا آسمان نیلا ہے، جب تک پہاڑ سر اٹھائے کھڑے ہیں، جب تک سمندر شور مچاتا ہے، تب تک بلوچ کا سر نہیں جھکے گا۔ آزادی کی یہ صدا وہ چنگاری ہے جو راکھ میں دبی نہیں رہے گی—یہ شعلہ بھڑکے گا، یہ آگ پھیلے گی، اور ایک دن تاریخ کا رخ موڑ دے گی۔
آج ماہ رنگ بلوچ جیل میں قید ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی گرفتاری نے اسے مزید مضبوط کر دیا ہے۔ بلوچستان کی سیاست میں اس کا قد اور بڑھ گیا ہے، اور عالمی سطح پر اس کی جدوجہد ایک مثال بن چکی ہے۔ وہ جب بھی زندان سے باہر نکلے گی، پہلے سے زیادہ طاقتور ہوگی، اور ریاست کے لیے اسے خاموش کرانا پہلے سے بھی زیادہ مشکل ہوگا۔
بلوچستان کی سرزمین صدیوں سے سرفروشوں کی گواہ رہی ہے۔ یہاں کے پہاڑوں، دریاؤں اور وادیوں میں وہ یادگاریں دفن ہیں جو ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کی علامت بن چکی ہیں۔ انہی داستانوں میں ایک نام ماہ رنگ بلوچ کا بھی ہے —وہ چاند کا دروشم، جو اندھیروں میں روشنی کی علامت بن چکی ہے، وہ آواز جو زندانوں میں بھی گونج رہی ہے، وہ تحریک جو صرف ایک فرد نہیں بلکہ ایک نظریہ بن چکی ہے۔
آج ماہ رنگ بلوچ کسی قید خانے میں ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ آزاد ہے۔ اس کا نام صرف بلوچستان میں ہونے والے ریلیوں، دھرنوں،اور جلسوں میں نہیں، عالمی تنظیموں کی رپورٹس میں بھی گونج رہا ہے۔
یہ تاریخ کا مقدس سفر ہے کہ جب درد کی دہلیز پر کھڑا ایک فرد، ایک پورا عہد بن جاتا ہے۔ ماہ رنگ! وہی لڑکی جو اپنے باپ کی تلاش میں گلیوں، عدالتوں، پریس کلبوں اور احتجاجی کیمپوں میں بھٹکتی رہی، جس نے ہر عدالت میں انصاف کی دہلیز پر اپنی سسکیوں کے چراغ جلائے، آج وہ ایک نظریہ ہے۔
یہی ماہ رنگ، جو کبھی بلوچ ماں کے آنسوؤں کا عکس تھی، آج شعور کی شمع ہے۔ اس کے نام پر گانے لکھے جا رہے ہیں، اس کے لیے انقلابی نغمے تخلیق ہو رہے ہیں، دانشور اس کے درد کو لفظوں میں ڈھال کر تاریخ کا حصہ بنا رہے ہیں۔ وہ مظلومیت کی تصویر سے مزاحمت کی علامت میں ڈھل چکی ہے۔
کیا تاریخ نے ایسے لمحے پہلے نہیں دیکھے؟ کیا سقراط کا زہر پینا، منصور کا سولی چڑھنا، یا چی گویرا کی شہادت ایک آواز کو ہمیشہ کے لیے ختم کر سکی؟ نہیں! انقلابات ہمیشہ درد سے پیدا ہوتے ہیں، اور ماہ رنگ وہی شعلہ ہے جسے بجھانے کے لیے ظلم نے کتنے ہی ستم آزمائے، مگر وہ روشنی میں بدل گیا۔
آج جب اسے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا، تو یہ صرف ایک فرد کی جیت نہیں، بلکہ تمام بلوچ جہد کاروں کے حوصلے کی جیت ہے۔ یہ اس جدوجہد کا اعتراف ہے جو نسلوں سے جاری ہے۔ ہر بلوچ ماں، جو کسی لاپتہ بیٹے کا انتظار کر رہی ہے، اس میں اپنی جھلک دیکھتی ہے۔ ہر مظلوم، جو حق کے لیے کھڑا ہونا چاہتا ہے، اس سے حوصلہ پاتا ہے۔
ماہ رنگ کا نام اب صرف ایک نام نہیں۔ ایک مزاحمتی استعارہ بن چکی ہے، ایک زندہ حقیقت جو تاریخ کے صفحات پر سونے کے حروف میں لکھی جا رہی ہے۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسے نام کبھی مٹائے نہیں جا سکتے۔
ماہ رنگ چاند کا دروشم ہے، جو رات کی سیاہی میں بھی اپنی روشنی نہیں کھوتا۔ وہ مشعل ہے، جو اندھیروں کو چیر کر راستہ دکھاتی ہے۔ وہ تحریک ہے، جسے زندانوں میں قید نہیں کیا جا سکتا۔
۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ایک ایسی توانا آواز ہیں، جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی پرعزم نظر آ رہی ہیں۔ ان کی بہن سے ملاقات کے دوران جو تاثرات سامنے آئے، وہ ایک مضبوط اور حوصلہ مند شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ نے واضح پیغام دیا کہ وہ خوفزدہ ہونے والی نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ظلم اور جبر کے باوجود وہ انصاف کی جدوجہد جاری رکھیں گی اور کسی دباؤ کے آگے نہیں جھکیں گی۔ یہ الفاظ نہ صرف ان کے حوصلے کی گواہی دیتے ہیں بلکہ یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ وہ بلوچ عوام کے حقوق کے لیے اپنی آزادی کی قربانی دینے کو بھی تیار ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ جبری گمشدگیاں، انسانی حقوق کی پامالیاں اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں بلوچستان میں ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکی ہیں۔ ایسے میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جیسے لوگ وہ چراغ ہیں جو اندھیرے میں بھی جلتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا بالکل درست ہے کہ مزاحمت کی اصل طاقت یکجہتی اور مسلسل جدوجہد میں ہے۔ تاریخ نے ہمیشہ یہ ثابت کیا ہے کہ ظلم وقتی ہوتا ہے، مگر حق کی جدوجہد دیرپا ہوتی ہے اور بالآخر کامیابی حق کی ہی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ کا حوصلہ صرف ان کے خاندان کے لیے نہیں بلکہ پوری بلوچ قوم کے لیے ایک پیغام ہے کہ جبر اور دباؤ کے باوجود اپنی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹنا۔ ان کی بہن کے مطابق، جیل کی مشکلات نے انہیں کمزور نہیں کیا بلکہ ان کے عزم کو مزید مضبوط کر دیا ہے۔
۔ ڈاکٹر ماہ رنگ کی ہمت اور جرات اس بات کا ثبوت ہے کہ حق کے لیے لڑنے والے کسی بھی حالات میں اپنی راہ سے نہیں ہٹتے۔ "تم جسموں کو قید کر سکتے ہو، خیالات کو نہیں۔ تم ہاتھ باندھ سکتے ہو، سوچ کو نہیں۔ تم زبانوں پر تالے لگا سکتے ہو، مگر سچائی کی گونج کو روک نہیں سکتے۔” – یہ الفاظ ارجنٹائن کے معروف ادیب بورخیس کے ہیں، جو ظلم کے خلاف مزاحمت کی حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ محض ایک فرد نہیں، ایک تحریک ہیں، ایک سوچ ہیں، ایک ایسی دروشم ہیں جو جلتی ہے تو راستہ روشن کرتی ہے۔ وہ ایک نظریہ ہیں، اور نظریات کو کبھی بھی زنجیروں میں نہیں جکڑا جا سکتا۔ ریاستی گرفتاریوں اور جبر کے باوجود وہ ہنستی ہیں، مسکراتی ہیں، آگے بڑھتی ہیں اور جو کہنا ہوتا ہے کہہ دیتی ہیں۔ یہی مزاحمت کا حسن ہے، یہی آزادی کی پہلی سیڑھی ہے۔
”طاقتور ترین ریاست بھی ایک نظریے سے زیادہ مضبوط نہیں ہو سکتی۔” – ولندیزی فلسفی اسپینوزا کی یہ بات ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ظلم وقتی ہوتا ہے، مگر فکر ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ آج ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو قید کیا گیا ہے، مگر کیا ان کے خیالات کو جیل کی سلاخوں میں رکھا جا سکتا ہے؟ کیا ان کے الفاظ کو زنجیروں میں جکڑا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں!وہ بلوچستان ہیں، اور بلوچستان کو قید نہیں کیا جا سکتا۔ خاردار تاریں جسموں کو روک سکتی ہیں، مگر سوچ اور جدوجہد کو نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جبر کے خلاف ہر تحریک نے راستہ بنایا ہے، چاہے وہ نیلسن منڈیلا کی جدوجہد ہو یا چی گویرا کی مزاحمت۔ "ظلم اگر حد سے بڑھ جائے تو ختم ہو جاتا ہے۔” – جرمن فلسفی ہیگل کی یہ بات ہمیں سکھاتی ہے کہ طاقت کا غلط استعمال خود طاقتور کو کمزور کر دیتا ہے۔
ماہ رنگ کی گرفتاری نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سچ بولنے کی قیمت دینی پڑتی ہے، مگر سچائی کو دبایا نہیں جا سکتا۔ جارج آرویل نے کہا تھا، "جبر ہمیشہ کمزور حکمرانوں کی نشانی ہوتا ہے۔” اگر کوئی غیر ملکی ایک قوم کی آواز دبانے کی کوشش کرے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنے ہی وجود سے خوفزدہ ہے۔
جاری