تحریر رامین بلوچ — دوسراحصہ
زرمبش اردو

ماہ رنگ بلوچ ایک سرگرم سیاسی ایکٹوسٹ کے طور پر اس وقت زیادہ نمایاں ہوئی جب ٹورنٹو، کینیڈا میں بانک کریمہ بلوچ کی پراسرار اور المناک شہادت کا واقعہ رونما ہوا۔ وہ بانک کریمہ کی شہادت کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں صف اول میں رہی، بانک کریمہ بلوچ کی پراسرار قتل نے انسانی حقوق کے تنظیموں، عالمی برادری اور بلوچ سیاسی حلقوں میں شدید اضطراب پیدا کیا۔
ماہ رنگ بلوچ نے اس قتل کا الزام پاکستانی ریاست پر عائد کرتے ہوئے کینیڈا سمیت تمام عالمی قوتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اس واقعے کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ ماہ رنگ بلوچ نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے واضح کیاکہ یہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک منظم کارروائی ہے، جس کے لے پاکستانی ریاست پر جوابدہ ٹہرایا جائے۔
اس کے بعد ماہ رنگ بلوچ محض ایک نام نہیں، بلکہ ایک تحریک بن گئی، جو ہر اس بلوچ کے دل سے میں جگہ پائی۔ جو جبری گمشدگی کا شکار ہوا، جو ریاستی عقوبت خانوں میں ظلم سہتا رہا، جو نام نہاد مقابلوں میں گولیوں کی نذر ہوا، جو بے نام قبر میں دفن کر دیا گیا۔ وہ ان سب کی گمشدہ آوازوں کو اپنی زبان دیتی رہی، وہ ان ماؤں کی چیخوں میں ڈھلتی رہی جن کے لختِ جگر لوٹ کر نہ آئے، وہ ان بہنوں کی سسکیوں میں شامل رہی جن کے بھائیوں کی شناخت کسی سرد مردہ خانے میں ایک لاش کے ٹیگ سے جُڑ گئی۔
ماہ رنگ ان جنازوں میں موجود رہی جن میں بین کرنے والوں کی زبانوں پر سسکیاں تھیں اور آنکھوں میں سوال۔ وہ اُن احتجاجوں میں پیش پیش رہی جہاں بینرز پر صرف نام تھے، اور پیچھے کہانیاں تھیں — خون میں بسی، اذیت میں ڈوبی، خاموشی میں دفن کہانیاں۔ وہ بلوچستان کے صحراؤں میں ان لاشوں کی وارث بنی جنہیں شناخت کے بغیر دفن کر دیا گیا، وہ ساحلوں پر ان آنکھوں کی تلاشی میں رہی جو امید لیے سمندر کو تکتے تکتے پتھرا گئیں۔
وہ ہر اس صدا کی بازگشت بن گئی جو زنجیروں میں جکڑ دی گئی، ہر اس خواب کی گواہ بنی جو عقوبت خانوں میں ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا۔ وہ وہی سوال بن گئی جو بلوچستان کے ہر چوک، ہر گلی، ہر در و دیوار پر لکھا ہوا ہے — "میرا بھائی کہاں ہے؟” "میرے بابا کو کیوں مارا گیا؟” "یہ لاشیں کب تک گرتی رہیں گی؟”
وہ ان ماؤں کی امید ہے جن کے آنچل میں ابھی تک بیٹوں کی خوشبو باقی ہے، وہ ان بہنوں کا حوصلہ ہے جو اپنے بھائیوں کی تصویروں کو سینے سے لگائے بیٹھی ہیں، وہ ان بچوں کا سوال ہے جن کے والد زندہ تھے، مگر پھر غائب کر دیے گئے۔ وہ وہی سوال ہے جو ہر بلوچ کی زبان پر ہے، وہی سوال جو تاریخ کی سنگین ترین سچائی بن چکا ہے —
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ 2021 میں اس وقت ایک نمایاں مزاحمتی آواز کے طور پر ابھری، جب ہوشاپ میں دو معصوم بچوں کو ریاستی فورسزنے شہید کیا۔ اس اندوہناک واقعے کے خلاف مارنگ بلوچ،بلوچ وومن فورم کے ساتھ مل کر ان بچوں کی لاشیں لے کر چھ روز تک گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا، تاکہ ریاستی فورسز کے خلاف مقدمہ درج کیا جا سکے۔
بعد ازاں، ان بچوں کے جسدِ خاکی کو کوئٹہ (شال) میں سپردِ خاک کیا گیا، جہاں بلوچ خواتین نے نہ صرف جنازے میں شرکت کی بلکہ ان کے تابوتوں کو کندھا بھی دیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر ماہ رنگ، غم اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ، اپنے آنسو ضبظ کرتے ہوئے کہنے لگیں ”بچوں کے کھیلنے کے دن ہوتے ہیں۔ اگر وہ طبعی موت مر جائیں، تو وقت کے ساتھ لوگ ان کا غم بھول جاتے ہیں، لیکن اگر معصوم بچے بھی ریاستی جبر کا نشانہ بنیں، تو وہ زخم کبھی نہیں بھر پاتے۔” انہوں نے مزید کہا: "مجھ سمیت جن خواتین نے ان بچوں کے تابوتوں کو کندھا دیا، وہ سب اشکبار تھیں۔ میں سوچ رہی تھی کہ اگر ہمارے معصوم بچے بھی محفوظ نہیں رہے، تو پھر اور کون بچے گا؟”
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ یہ صرف دو بچوں کا سانحہ نہیں، بلکہ اس سے پہلے بھی کئی معصوم بچے ریاستی جبر کا نشانہ بن چکے ہیں، مگر ان میں سے زیادہ تر واقعات کو میڈیا میں رپورٹ تک نہیں کیا گیا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ چند روز قبل ضلع واشک کی تحصیل گچک سے ایک بارہ سالہ بچی، صنم جمیل، اور اس کے چھوٹے بھائی کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔
غم و الم سے جڑی بلوچستان کی ایک اور کہانی تربت میں بالاچ بلوچ کی ریاستی حراست میں شہادت کا واقعہ رونما ہوا،یہ سانحہ محض ایک فرد کی شہادت نہیں بلکہ بلوچ قوم کی خونی تاریخ میں ایک اور زخم کا اضافہ تھا، جو ریاستی جبر اور بلوچ عوام کے خلاف مسلسل جاری مظالم کی ایک اور تلخ مثال بن گیا۔ بالاچ بلوچ کی ریاستی حراست میں شہادت نے نہ صرف کیچ بلکہ پورے بلوچستان کو سوگوار کر دیا۔ اس ظلم کے خلاف جس عوامی بیداری اور مزاحمتی سیاست نے جنم لیا، اس کی قیادت کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ اور سمی دین نے سینکڑوں بلوچ ماؤں، بہنوں، بزرگوں اور بچوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف نکلی، جنہوں نے کیچ سے کوئٹہ اور پھر اسلام آباد تک لانگ مارچ کی قیادت کر کے بلوچ عوام کے دیرینہ زخموں کو دنیا کے سامنے عیاں کر دیا۔
یہ لانگ مارچ محض ایک احتجاجی جلوس نہیں تھا بلکہ ایک تاریخی لمحہ تھا، جس نے بلوچ مقدمہ کو ایک نئے زاویے سے پیش کیا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ نے ایک منظم، موثر اور مدبرانہ قیادت کا ثبوت دیا، جہاں ان کے ہر لفظ میں سیاسی فہم، ہر جملے میں مزاحمت کی چنگاری، اور ہر تقریر میں ایک اجتماعی درد کا اظہار تھا۔ ان کی قیادت میں یہ لانگ مارچ ریاستی جبر کے خلاف مزاحمتی سیاست کا ایک نیا باب ثابت ہوا۔
بلوچ جبری گمشدگیوں اور جعلی مقابلوں میں قتل عام کی تاریخ نئی نہیں، مگر اس لانگ مارچ نے ان مظالم کے خلاف ایک نیا بیانیہ متعارف کروایا، جو بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے نظرانداز کرنا ممکن نہ تھا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ نے اپنی فکری گہرائی اور اصولی مؤقف کے ساتھ بلوچ مسئلے کو محض اسلام آباد کے سطح تک نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ایک انسانی المیے کے طور پر پیش کیا۔
یہ احتجاج محض سڑکوں پر چلنے کا نام نہ تھا بلکہ یہ تاریخ کی سمت بدلنے کی ایک سعی تھی۔ اس میں بلوچ نوجوانوں کی بے چینی، بوڑھی ماؤں کی فریاد، بہنوں کا انتظار، اور ان گمشدہ لوگوں کی چیخیں شامل تھیں جو زندانوں میں اپنی شناخت کھو بیٹھے تھے۔ اس لانگ مارچ نے یہ ثابت کیا کہ ریاستی جبر کی انتہائیں عوامی شعور کو دبانے کے بجائے اسے مزید مضبوط کرتی ہیں، اور ڈاکٹر ماہ رنگ جیسی مزاحمتی شخصیات تاریخ کے دھارے کا رخ موڑنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔
یہ واقعہ اور اس کے بعد ابھرنے والی تحریک بلوچستان کے سیاسی منظرنامے میں ایک نیا سنگ میل ثابت ہوئی، جو نہ صرف مزاحمتی سیاست کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن مثال بھی بنے گی۔
یہ وہی اسلام آباد تھا جہاں بلوچوں کے حصے میں ہمیشہ دھتکار، تشدد، جبری گمشدگیاں اور گرفتاریوں کا تسلسل رہا—وہی شہر جس کی سڑکوں او ر میدانوں کے بیچ بلوچ شناخت اجنبی اور غیرمحفوظ رہی۔ یہ شہر کٹھ پتلی راہداریوں میں فیصلے کرنے والوں کے لیے ایک جنت، اور ان کے تابعداری اور جی حضوری نہ کرنے والے کے لیے محض ایک قیدخانہ تھا۔
ہر بولی جانے والی بلوچی زبان، ہر کتاب اور ہر اجتماع شک کے دائرے میں آجاتا۔
یہاں کے ہوٹلوں، کیفے ٹیریاز، اور یونیورسٹی کی راہداریوں میں اگر بلوچ نوجوان نظریاتی گفتگو کرے تو وہ ریاست مخالف سمجھا جاتا، اگر خاموش رہے تو مشکوک ٹھہرتا۔ یہ وہی شہر تھا جہاں بلوچستان سے آئے والدین اپنے لاپتہ بچوں کی تصویریں لیے دنوں تک پریس کلب کے سامنے کھڑے رہتے، لیکن ان کے آنسوؤں کا بوجھ اس شہر کی ایوانی دیواروں تک کبھی نہ پہنچ سکا۔
یہاں احتجاج کی ہر آواز کو بغاوت سمجھا جاتا، ہر نعرہ کسی ناقابل معافی جرم کے مترادف تھا، اور ہر بلوچ نوجوان اپنی شناخت کے ساتھ ساتھ اپنی بقا کی جنگ بھی لڑ رہا تھا۔ اسلام آباد کے لیے بلوچ محض ایک کیس تھا، ایک فائل، ایک مسئلہ— لیکن بلوچ نوجوانوں کے لیے اسلام آباد ایک آزمائشی راہداری تھی، جس سے گزرنا ہمیشہ خطرات سے خالی نہ تھا۔
یہ وہی اسلام آباد تھا جہاں ماہ رنگ بلوچ اور اس کے قافلے کو ریاست نے روایتی جبر سے خوش آمدید کہا۔ آنسو گیس، لاٹھی چارج، گرفتاریاں، ڈی پورٹ کرنے کے اعلانات— واٹر کینن،پریس کلب کے دروازے بند کر دیے گئے، بلوچ مظاہرین کو خار دار تاروں کے پیچھے قید کر دیا گیا،۔۔یہ سب وہ حربے تھے جن کے ذریعے ریاست بلوچ آواز کو دبانا چاہتی تھی۔ مگر اس با ر کم از کم قابض یاست کا مکروہ چہرہ اسلام آباد کے شہریوں نے قریب سے دیکھا، سلام آباد کی سڑکوں پر بلوچ لانگ مارچ مزاحمت سے بھرپور آوازوں اور بلوچ مظاہرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے ہر وہ حربہ آزمایا گیا جو کسی بھی اخلاقی دیوالیہ پن کی معراج ہوسکتی ہے۔
میڈیا کو دھمکایا گیا، لفافہ صحافیوں کو متحرک کیا گیا، اور سچائی کو گمراہ کن بیانیوں کے گرداب میں دفن کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایسے بیانیے جو مظلوم کو مجرم، اور ظالم کو نجات دہندہ ثابت کرنے کے لیے تراشے گئے۔ مین سٹریم میڈیا کا بلیک آؤٹ کیا گیا، جو چینلز سچ بولنے کی جرات کرتے، ان کے نشریاتی حقوق پر دباؤ ڈالا گیا، اور جو صحافی مظلوموں کی سسکیوں کو الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش کرتے، انہیں سنگین نتائج کی وعید سنائی گئی۔لیکن اس بار ریاستی حواس باختگی محض میڈیا مینجمنٹ تک محدود نہ رہی، بلکہ اس نے وہ سب کرنے کی ٹھانی جو کسی مہذب سماج میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ بلوچ لانگ مارچ کے شرکاء کی آواز روکنے کے لیے ریاست اس حد تک گر گئی کہ رات گئے ان کے اسپیکر تک چرا لیے گئے۔ نوآبادیاتی ذہنیت کی اس وحشت کا اندازہ لگائیے —بلوچ احتجاج کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایک مخصوص ڈیتھ اسکواڈ کیمپ لگایا گیا، تاکہ دباؤ بڑھایا جا سکے، تاکہ خوف کو دوبارہ ان دلوں میں زندہ کیا جا سکے جو مسلسل ریاستی جبر سہنے کے باوجود بھی اسلام آباد کے ایوانوں تک اپنی آواز پہنچانے آئے تھے۔
یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ ریاست اس لانگ مارچ سے خوفزدہ تھی۔ اس مارچ میں لاپتہ بیٹوں، بھائیوں اور شوہروں کی سسکیاں شامل تھیں، ان ماؤں کی صدائیں تھیں جو برسوں سے اپنے بچوں کی راہ تک رہی تھیں، ان بہنوں کی امیدیں تھیں جو دروازے پر ہر آہٹ کو کسی خوشخبری کے طور پر سنتی رہتی ہیں۔ یہ وہ سوال تھیں، جن کا جواب دینے کی ریاست کے پاس نہ اخلاقی جواز تھا، نہ قانونی جواز، اور نہ ہی انسانی ہمدردی کی رمق۔یہ کربلا کی وہی کہانی تھی جو وقت کے یزید ہمیشہ دہراتے ہیں، جہاں حق کی صدا کو دبانے کے لیے ہر حد پار کی جاتی ہے۔
شال میں بیبو بلوچ اور ہزاروں مرد خواتیں سڑکوں پر نکل کر ریلیاں نکالیاں مزاحمت کی مشعل روشن کی ۔شال سمیت پورا بلوچستان بند رہا سڑکیں ویران اور بازاروں میں سناٹے چھائی رہی۔ اسلام آباد میں ڈاکڑماہ رنگ، سمی دین بلوچ، شاجی صبغت نے ریاستی کے جنگی جارحیت ہر شکل اور پہلو کو عالمی دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔