تحریر: باتیل بلوچ
زرمبش اردو

میرا ہاتھ کانپ رہا ہے، اور میرا قلم لکھنے کے لیے بے بس اور بے تاب ہوتا جا رہا ہے۔ بے بس اس لیے کہ میں ڈاکٹر منان جان جیسے عظیم انسان کے بارے میں لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں، اور قلم بے بسی کے عالم میں خوفزدہ ہے کہ کیا میں منان جان کے مقام کو اپنے الفاظ میں سمو سکتا ہوں یا نہیں۔ اور بے تاب اس لیے کہ میں ایک ایسے عظیم، اصولی، بہادر، اور شعوری انسان کے بارے میں لکھنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
کہا جاتا ہے کہ ہر انسان ماں کی گود میں پیدا ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ بڑا ہو جاتا ہے، مگر "انسان” بننے کے لیے اسے شعوری ارتقا کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات کچھ شخصیات محض ارتقائی عمل سے نہیں گزرتیں بلکہ انقلاب کی کٹھن راہوں اور عملی جدوجہد کی کسوٹی پر پرکھ کر ایک مکمل انسان بن جاتی ہیں۔ ڈاکٹر منان جان بھی اسی انقلابی عمل کی بھٹی میں تپ کر ایک مکمل انسان بن گئے اور ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔
ہاں، ڈاکٹر منان! اگر آپ "ڈاکٹر” کو ان کے نام سے الگ کریں، تب بھی وہ ایک عظیم لیڈر، سچے راہشون (رہبر) اور بلوچ قوم کے لیے ایک روشن مینار کی مانند ہیں۔ وہ سورج کی کرن کی طرح تھے، جو تحریکِ آزادی کو روشنی بخشتے رہے۔ مگر سورج تو دن کے کچھ مخصوص گھنٹوں کے لیے ہی چمکتا ہے اور پھر غروب ہو جاتا ہے، جبکہ منان جان ایسا چراغ تھے جو کبھی بجھنے والا نہیں۔ وہ ایک ایسی روشنی ہیں جو وقت کے ساتھ اور بھی زیادہ روشن ہوتی جا رہی ہے۔
منان جان صرف آزادی کے سفر تک محدود نہیں، بلکہ وہ آزادی کے بعد بھی اپنے لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ وہ آج بھی بلوچ دھرتی میں ایک دہقان کی شکل میں، ایک چرواہے کی صورت میں، ایک انقلابی سرمچار کے روپ میں موجود ہیں۔ دشمن شاید یہ سمجھ بیٹھا کہ منان جان شہید ہو گئے، فنا ہو گئے، مگر انہیں یہ معلوم نہیں کہ منان جان جیسے لوگ کبھی مرتے نہیں۔ وہ ایک نظریہ ہیں، جو ہر اس لمحے میں زندہ رہیں گے جب تک کہ ظلم کا اندھیرا قائم ہے، جب تک بلوچ مائیں اور بہنیں اپنے پیاروں کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرتی رہیں گی، جب تک جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند نہیں ہوتا، جب تک بلوچستان آزاد نہیں ہوتا۔
منان جان صرف ایک خوبصورت انسان نہیں بلکہ خوبصورت ترین شخصیت تھے، کیونکہ وہ محض الفاظ کے آدمی نہیں تھے بلکہ عمل کے پیکر تھے۔ وہ بلوچ قوم کے لیے وہ انمول ہیرا تھے، جو صدیوں بعد کہیں جا کر پیدا ہوتے ہیں۔ وہ ایک ایسے راہبر تھے، جو نہ صرف اپنی قوم کی نفسیات کو سمجھتے تھے بلکہ اسی کے مطابق ان سے بات کرتے تھے— جو ایک سچے لیڈر کی بڑی خوبی ہے۔ وہ ایک عظیم موٹیویٹر (مؤپلائزر) تھے، جن کی خوشبو گواڑخ کے کسی پھول سے زیادہ وسیع تھی اور جو جدوجہد میں شامل ہر فرد کے حوصلے کو معطر کرتی تھی۔
منان جان ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں، جسے جتنا پڑھو، اتنا ہی علم، عمل، اور امید کی نئی راہیں روشن ہوتی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو بھی انہیں پڑھتا ہے، وہ عمل اور علم کی راہ پر گامزن ہو کر "انسان” بننے کے اس معیار کی طرف بڑھتا ہے جس پر منان جان خود پورے اترے۔ ہمیں خود سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا آج بھی کوئی اس کسوٹی پر عمل پیرا ہے، یا ہم اس سے ہٹ چکے ہیں؟
منان جان وہ لہلہاتا ہوا چراغ تھے، جو پڑھنے اور سمجھنے سے بجھنے کے بجائے مزید روشن ہوتا جاتا ہے۔ ان کی فکر اور ان کے خیالات، وقت کے ساتھ ساتھ انسانی دماغ کو وسعت دیتے ہیں، اور ہر وہ شخص جو ان کے راستے پر چلتا ہے، خود بھی منان جان بننے کی تمنا کرنے لگتا ہے۔ وہ وقت کی کٹھن گھڑیوں میں امید، حوصلے اور بہادری کی علامت بنے رہے اور ہر لمحہ اپنی جدوجہد سے ثابت کرتے رہے کہ وہ اپنے نظریے کے ساتھ مخلص تھے۔
منان جان وہ علم کا مینار تھے، جو محض کتابی فلسفہ نہیں بلکہ عملی دلیل اور زندگی کا سچا اصول تھے۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھے، جن پر سیکڑوں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں، مگر پھر بھی ان کی جدوجہد کو مکمل طور پر سمیٹنا ممکن نہیں۔ وہ چلتن کے پہاڑوں سے بلند اور بولان کی گہرائیوں سے زیادہ عمیق تھے۔ وہ ایک تنظیمی اصول تھے، جنہیں اپنانے والا ہر جہدکار خود میں ایک عظیم تبدیلی محسوس کرتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر منان جان نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک تنظیمی ڈسپلن اور اصولوں کی پاسداری کی، حتیٰ کہ اپنی شہادت سے پہلے بھی تنظیم کے چیئرمین سے اجازت لی۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جو شخص اپنی جان کا فیصلہ بھی تنظیمی اصولوں کے تحت کرتا تھا، وہ بلوچ قوم کے لیے کس قدر اہم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی اپنے لوگوں کے لیے راہشون (رہبر) ہیں، اور ایسے رہنما صدیوں میں جا کر پیدا ہوتے ہیں۔
زاہد بلوچ اور ڈاکٹر منان دو ایسے قائد تھے، جو علم، عمل، اور شعور کی مثلث کا کامل امتزاج تھے۔ تاریخ نے ان پر کرم کیا کہ یہ دونوں ایک ہی دور میں پیدا ہوئے۔ ایک کو ٹارچر سیلوں میں قید کر کے غائب کر دیا گیا، وہ پوسٹروں پر نمودار ہوا مگر اس کی زندگی اور موت کا پتہ نہ چل سکا، جبکہ دوسرے کو شہید کر دیا گیا، مگر وہ پھر بھی زندہ ہے— اپنی فکر، اپنی روشنی، اور اپنی جدوجہد کے ذریعے۔