
بلوچ آزادی پسند رہنما رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے اپنے سوشل میڈیا ایکس پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حقوق انسانی کے معروف کارکن بیبرگ بلوچ، اس کے بھائی ڈاکٹر حمل بلوچ اور بولان میڈیکل کالج کے وائس پرنسپل اور معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر واجہ الیاس بلوچ سمیت درجنوں بلوچوں کے گھروں پر چھاپے، چادر و چار دیواری کے تقدس کی پامالی، ان کی اغوا نما گرفتاریاں، گرفتاری کے بعد ان کی گمشدگی جیسے غیر انسانی واقعات ہوں یا جعلی فوجی آپریشن میں قتل افراد کے لاشوں کی شناخت میں رکاوٹ ڈالنے اور بعض لاشوں کو شناختی عمل کے بغیر دفنانے کا واقع ہو، یا پھر سعیدہ بلوچ سمیت سول اسپتال کے سامنے احتجاجی خواتین پر پولیس کی تشدد اور سعیدہ بلوچ سمیت بعض خواتین کی گرفتاری کا وحشیانہ اقدام ہو، ان سب واقعات سے عیاں ہوتا ہے کہ مقبوضہ بلوچستان میں تحریک آزادی کی بڑھتی طاقت اور عوامی حمایت سے قابض ریاست پاکستان حواس باختہ ہوگئی ہے۔ حواس باختہ ریاست بلوچ سرمچاروں اور عام بلوچ شہریوں کے درمیان تمیز نہیں کرسکتی۔ ریاست کی یہ سفاکیت اس کی استعماری فطرت کو بے نقاب کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ بلوچستان میں پاکستان کی ریاستی دہشتگردی کی پالیسی اس عالمگیر سچائی کو ثابت کررہی ہے کہ ظالم تاریخ سے نہیں سیکھتے۔ اگر فوجی طاقت و تشدد سے کسی قوم کو محکوم، غلام یا اس کی رضامندی کے بغیر ساتھ رکھا جاسکتا تو دنیا کے نقشے پر آج بنگلہ دیش نہیں ہوتا، آج بھی افریقہ، امریکہ، ایشیا اور آسٹریلیائی اقوام یورپی استعماری ریاستوں کی کالونیاں ہوتیں۔
انہوں نے لکھا ہے کہ بلوچ قومی رہنما مرحوم سردار خیر بخش مری نے بہت عرصہ پہلے کہا تھا کہ "سور کے ساتھ رہ سکتے ہیں مگر پنجابی کے ساتھ نہیں”۔ آج پنجابی حکمران طبقہ و فوج کی سفاکیت اور اخلاقی پستی مرحوم سردار خیر بخش مری کی اس رائے اور اس کے کہے ہوئے ایک ایک لفظ کو درست ثابت کررہی ہیں۔