
بلوچ وومن فورم نے بلوچ عوام، خاص طور پر خواتین، کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بڑھتے ہوئے کریک ڈاؤن کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی ادارے انسانی حقوق کے لیے جاری بلوچ عوام کی پرامن جدوجہد کو دبانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔
فورم کی مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ گزشتہ روز سول اسپتال سے سعیدہ بلوچ سمیت دیگر بلوچ خواتین کی غیر قانونی حراست اور آج علی الصبح بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) کے مرکزی رکن بیبگر بلوچ کے گھر پر چھاپہ، جہاں انہیں اور ان کے بھائی، پی ایچ ڈی اسکالر ڈاکٹر حمل زہری کو جبری طور پر حراست میں لے لیا گیا، یہ سب ریاست کے غیر آئینی اقدامات اور بلوچ عوام کی آواز دبانے کی کوششیں ہیں۔
ترجمان کے مطابق، بلوچ طلبہ کے ہاسٹلز اور گھروں پر مسلسل چھاپے مارے جا رہے ہیں، جہاں رات گئے شناخت کے نام پر انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ رات بولان میڈیکل کالج کے وائس پرنسپل ڈاکٹر الیاس بلوچ اور ان کے اہلِ خانہ کو بھی اسی طرح کے چھاپے کے دوران ہراساں کیا گیا، جس کے بعد انہیں اور ان کے بیٹے کو زبردستی لاپتہ کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ریاستی جبر کے یہ نئے طریقے بلوچ عوام میں مزید بےچینی اور عدم تحفظ کو جنم دے رہے ہیں۔ بلوچ وومن فورم ان جبری گمشدگیوں، غیر قانونی گرفتاریوں اور تشدد کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور حکام سے مطالبہ کرتا ہے کہ تمام جبری طور پر حراست میں لیے گئے افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے، تاکہ بلوچ عوام کے حقوق کے لیے جاری پرامن جدوجہد کو مزید دبانے کے بجائے اس کا مثبت حل نکالا جا سکے۔