بلوچستان عشق، قربانی اور سخی بخش کی لازوال داستان

تحریر: میروانی بلوچ
زرمبش اردو

‎بلوچستان، وہ سرزمین جہاں ہوا کے ہر جھونکے میں آزادی کی صدا گونجتی ہے، جہاں پہاڑوں کی خاموشی میں شہیدوں کی دعائیں چھپی ہیں، جہاں ہر ذرے میں محبت اور ہر پتھر میں درد بستا ہے۔  جس کی مٹی میں شہیدوں کے خواب اگتے ہیں، اور جس کے پہاڑوں پر لازوال قربانیوں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔  یہ زمین اپنی خوبصورتی، اپنے رنگ، اپنی ثقافت اور اپنے لوگوں کے خالص عشق کی کہانی سناتی ہے۔ مگر اس عشق کی قیمت ہمیشہ لہو سے چکائی گئی ہے۔ بلوچستان کی مٹی کی خوشبو میں شہیدوں کا پسینہ اور خون شامل ہے، اور یہ سرزمین ہمیشہ اپنے عاشقوں کو سینے سے لگا کر امر کر دیتی ہے۔

یہاں کی گلیوں میں بچے آزادی کے خواب دیکھتے ہیں، مائیں اپنے گمشدہ بیٹوں کی تصویریں سینے سے لگائے دن رات انتظار کرتی ہیں، اور نوجوان اپنی تعلیم، اپنے خواب، اپنی ہنسی سب کچھ قربان کر کے پہاڑوں کی پناہ میں چلے جاتے ہیں — صرف اپنے وطن کی عزت اور وقار کے لیے۔ بلوچستان کی محبت کوئی عام محبت نہیں، یہ وہ عشق ہے جس میں سکون کی جگہ بے چینی ہے، جس میں زندگی کی جگہ قربانی ہے، اور جس میں خوابوں کی جگہ شہادت ہے۔

اسی زمین کے عاشقوں میں ایک نام تھا سخی بخش۔

سخی بخش، محبت کا روشن چراغ

سخی بخش، جسے ہم سب پیار سے کَندیل کہتے تھے، میرے بچپن کا دوست تھا۔ وہ صرف ایک دوست نہیں، وہ میرے دل کا ایک حصہ تھا۔ وہ دوستوں کا مسکرا ہوا چہرا تھا۔ بلکہ بلوچستان کی مٹی سے بے پناہ محبت کرنے والا، دردمند دل رکھنے والا ایک سچا سپاہی تھا، جس کی ہر دھڑکن اپنی زمین اور اپنے لوگوں کے لئے تھی۔  اسکول کی پہلی گھنٹی سے لے کر اس کی شہادت تک، وہ ہمیشہ میرے دل کے قریب رہا۔  کتابوں میں بلوچستان کی تاریخ کو پڑھا، اور پھر اس تاریخ کو اپنی آنکھوں کے سامنے دوبارہ لکھتے دیکھا — درد، جدوجہد اور قربانی کے الفاظ سے۔

سخی بخش ایک مہربان، حساس اور بے حد محب وطن شخص تھا۔ اُس کا دل بلوچستان کی مٹی کے لیے دھڑکتا تھا، اور اُس کی آنکھوں میں صرف ایک ہی خواب تھا اپنے لوگوں کے لیے ایک آزاد اور خوشحال زندگی۔ وہ ہمیشہ کہتا تھا: "یہ زمین ہماری ماں ہے، اور ماں کے لیے جینا اور مرنا ہمارا فرض ہے۔

مجھے وہ دن یاد ہے جب ہم کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے لیے نکالی گئی ریلی میں شریک تھے۔ ایک ماں روتے ہوئے اپنے بیٹے کی واپسی کی فریاد کر رہی تھی، اس کے آنسو سخی کی روح میں اتر رہے تھے۔ میں نے اس کی آنکھوں میں وہ درد دیکھا تھا جو صرف وہی محسوس کر سکتا تھا جس کا دل اپنی قوم کے دکھوں سے جُڑا ہو۔ اُس دن سخی نے کہا تھا: "یار، یہ ظلم کی انتہا ہے… اب تو جنگ کے سوا کچھ باقی نہیں رہا۔ یہ ظلم کی انتہا ہے۔ کب تک ہم اپنے لوگوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟ کب تک ہماری مائیں روتی رہیں گی؟ اگر ہم نے کچھ نہ کیا تو ہماری تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔”

خاموشی کا بوجھ اور بغاوت کا سفر

سخی نے اپنے جذبات کو دبانے کی بہت کوشش کی۔ مگر ظلم کی شدت اُس کے ضمیر کو سونے نہیں دیتی تھی۔ وہ اکثر راتوں کو جاگ کر سوچتا رہتا، کتابیں پڑھتا، اور پھر خاموشی سے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگتا جیسے آسمان سے کوئی جواب مانگ رہا ہو۔ کھبی کبھار میں اُس کے کمرے میں جاتا تھا، وہ میرے لیے چائے بناتا، ہم باتیں کرتے، مگر میں اُس کی آنکھوں کی اداسی کو کبھی نہیں بھول پایا۔

وہ کہتا تھا:”یار، میں اب مزید یہ ظلم نہیں دیکھ سکتا۔ میں یا تو کچھ بدلوں گا، یا مر جاؤں گا۔ لیکن خاموش نہیں بیٹھوں گا۔”

میں شال سے اپنے علاقے میں گیا اچانک پتہ چلا کہ سخی کوئٹہ سے گائب ہے دوستوں نے بتایا کہ وہ کوئٹہ چھوڑ چکا ہے، اور شاید پہاڑوں کی طرف نکل گیا ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ اپنے دل میں اپنے لوگوں کی ذمہ داری کا بوجھ لے کر گیا ہے۔ وہ بلوچستان کے عشق میں ایسا گرفتار تھا کہ اپنی زندگی کی قیمت پر بھی وہ اپنے خواب کو ادھورا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔

آخری شہادت کی خبر

جب میں لابئری سے لوٹ کے آیا تھا جب روم میں، میں نے فیس بک پر ایک پوسٹ دیکھی۔ آواران کے علاقے تیرتیج میں ایک جھڑپ ہوا ہیں ، اور دو تنظیمی ساتھی شہید ہو گئے ہیں۔ میرا دل دھڑکنا بند ہو گیا۔ میں نے بار بار اس پوسٹ کو پڑھا، دعا کی کہ یہ سخی نہ ہو۔ مگر جب تصویر دیکھی، تو میری دنیا اُجڑ گئی۔

وہ سخی تھا۔ اُس کی مسکراتی ہوئی تصویر کے نیچے شہادت کی خبر لکھا تھا۔ میں نے موبائل ہاتھ سے گرادیا، آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ وہ سخی جو ہمیشہ مسکراتا تھا،  میرے یار نے اپنا وعدہ پورا کر دیا، اُس نے اپنی جان دے دی، مگر اپنی سرزمین کی محبت کو کبھی نہیں چھوڑا۔

سخی بخش کی لازوال محبت

سخی بخش جیسے لوگ کبھی نہیں مرتے۔ وہ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے زندہ رہتے ہیں۔ اُس کی محبت، اُس کی قربانی، اُس کی جدوجہد ہمیں ہمیشہ یاد دلاتی رہے گی کہ بلوچستان کی آزادی کا خواب آسان نہیں، مگر وہ خواب حقیقت بن سکتا ہے اگر ہم بھی سخی جان کی طرح اپنی دھرتی کے لیے جینا سیکھیں۔

"شہید کبھی نہیں مرتے، وہ زمین کی سانس میں، ہوا کی سرگوشی میں، اور آزادی کے نعرے میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔”

سخی بخش کا نام بلوچستان کی تاریخ میں ہمیشہ ایک روشن ستارے کی طرح چمکتا رہے گا۔ اُس کی شہادت ہمیں سکھاتی ہے کہ عشق صرف جینے کا نہیں، مرنے کا بھی نام ہے۔ اور جو اپنی زمین سے عشق کرتے ہیں، وہ کبھی مٹتے نہیں۔

بلوچستان کی ہواؤں میں قندیل جان  کی محبت ہمیشہ مہکتی رہے گا۔

سخی بخش نمیران انت۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ