
تربت میں کیچ کی تحصیل تمپ دازن سے تعلق رکھنے والے نوجوان سہیل عبداللہ کی جبری گمشدگی کے خلاف ان کے اہلخانہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ انہیں 11 اکتوبر 2024 کو بہمن سے لاپتہ کیا گیا، اور پانچ ماہ گزرنے کے باوجود ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
اہلخانہ کے مطابق سہیل عبداللہ جسمانی مریض ہیں اور ان کا باقاعدہ علاج جاری تھا۔ وہ ماضی میں بھی جبری گمشدگی کا شکار ہوچکے ہیں، جب 2022 میں انہیں تمپ دازن سے لاپتہ کیا گیا اور ایک ماہ بعد شدید اذیت سہنے کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔
سہیل عبداللہ ایک حادثے میں شدید زخمی ہوچکے تھے، جس میں ان کے ہاتھ اور پاؤں ٹوٹ گئے تھے، اور وہ مسلسل طبی امداد کے محتاج تھے۔ حادثے کے بعد انہیں بہمن میں رشتہ داروں کے پاس منتقل کیا گیا تاکہ بہتر علاج ممکن ہو، مگر 11 اکتوبر کو انہیں وہاں سے جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا۔
اہلخانہ کے مطابق، سہیل کے ساتھ بہمن سے دیگر چار نوجوانوں کو بھی لاپتہ کیا گیا تھا، جنہیں چار ماہ بعد رہا کر دیا گیا، مگر سہیل عبداللہ تاحال لاپتہ ہیں۔ ان کے والد اپنے بیٹے کی گمشدگی کے باعث شدید ذہنی دباؤ میں مبتلا رہے اور ایک ماہ قبل وفات پا گئے، وہ اپنے بیٹے کی بازیابی کی امید میں دن رات انتظار کرتے رہے مگر انصاف نہ مل سکا۔
اہلخانہ نے انسانی حقوق کے اداروں اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ سہیل عبداللہ کی بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک نفسیاتی مریض اور جسمانی طور پر کمزور نوجوان کو یوں لاپتہ رکھنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر سہیل کو مزید لاپتہ رکھا گیا تو ان کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔