
مستونگ میں لاپتہ ظہور سمالانی کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی دھرنا دوسرے روز بھی جاری ہے، جس کے باعث بلوچستان کو ملانے والی اہم قومی شاہراہیں بند ہیں اور ٹریفک شدید متاثر ہو چکا ہے۔
آج مظاہرین نے اپنے احتجاج کو مزید وسعت دیتے ہوئے تفتان-کوئٹہ-کراچی قومی شاہراہ لکپاس کے مقام پر ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔ اس سے قبل نواب ہوٹل کے مقام پر بھی 24 گھنٹوں سے دھرنا جاری تھا، تاہم مظاہرین نے اپنا احتجاج مزید بڑھا کر لکپاس کے مقام پر بھی قومی شاہراہ بلاک کر دی ہے، جس کے نتیجے میں گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں۔
دھرنے کے شرکاء نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ پورے بلوچستان میں شاہراہیں بند کر دیں گے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی ادارے لاپتہ افراد کی بازیابی میں سنجیدہ نہیں اور مذاکرات کے لیے بھیجے جانے والے افسران خود کو "بے بس” ظاہر کرتے ہیں۔ شرکاء نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ صرف وہی افسران مذاکرات کے لیے آئیں جنہیں فیصلہ سازی کے مکمل اختیارات حاصل ہوں تاکہ ظہور سمالانی اور سیدگل سیدکلانی کی بازیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔
مظاہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر لاپتہ افراد کی بازیابی میں سنجیدگی نہ دکھائی گئی تو احتجاج میں مزید شدت آئے گی۔ انہوں نے بلوچ قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ اس تحریک میں شامل ہو کر جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کریں۔
دھرنے میں شامل افراد نے بارش اور سخت سردی کے باوجود صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے والے مسافروں اور ٹرانسپورٹرز کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کے پاس احتجاج کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔
احتجاج کے شرکاء نے حکومت کو دو ٹوک پیغام دیا ہے کہ جب تک لاپتہ افراد بازیاب نہیں ہوتے، ان کا احتجاج جاری رہے گا۔