شام کے وقت مہردات کا بڑا بھائی سالم جان جس کا اپنا ذاتی کاروبار تھا گھر آیا اور مہردات سے پوچھا کہ کیسا رہا یونیورسٹی کا پہلا دن۔؟
مہردات نے کہا کہ کوئی خاص نہیں بس ایک ہی کلاس تھا جس میں کچھ سیکھنے کو ملا۔
سالم نے کہا کہ پہلا دن ہی نہیں بسا اوقات پہلا ہفتہ بھی یوں ہی گرزتا ہے، اس میں پریشان ہونے کی بات نہیں۔ جس وقت ہم پڑھتے تھے اس وقت بھی ایسا ہی موحول ہوا کرتا تھا۔ بہرحال کچھ ہی دنوں بعد ہر چیز معمول پہ آجاتا ہے۔
باتوں باتوں میں سالم نے محسوس کیا کہ مہردات کچھ پریشان سا دکھائی دے رہا ہے۔ سالم نے کہا کہ تم کچھ ریشان دکھائی دے رہے ہو، وجہ کیا ہے؟
مہردات نے کہا، یہ عجیب نہیں کہ تعلیمی ادارے فورسز کی تحویل میں ہوں؟
سالم نے مغموم انداز میں کہا کہ اس وقت پورا بلوچستان فورسز کی تحویل میں ہے، ہر چورائے پہ باہر سے آنے والے فوجی مقامیوں کو روکتے ہیں، ان کی شناخت پوچھتے ہیں، ان کی توہین کرتے ہیں۔ اب یہ زندگی کا معمول بن چکا ہے۔ خیر تم ان چیزوں کو خاطر میں لائے بغیر اپنی تعلیم پر توجہ دو، یہ سیاست ہے اور سیاست ہمارا کام نہیں۔
بھائی ہر کوئی کہتا ہے کہ یہ سیاست ہے۔ لیکن میں سمجھتاہوں کہ سماج میں رہتے ہوئے کوئی بھی فرد سیاسی عمل سے کیسے بے دخل رہ سکتا۔ آخر ہم کیوں راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سیاست ہے اور سیاست ہمارا کام نہیں۔ بھائی میرے خیال سے سماجی تبدیلیوں کا نام ہی سیاست ہے اور اس کے لیے تو ہر کوئی کوشش کرتا ہے کہ مثبت تبدیلیاں رونما ہوں اور ظلم و بربریت یا انصافیوں کا خاتمہ ہو۔ میں بھی سوچتا ہوں اورمجھے کامل یقین ہے کہ تمہاری سوچ بھی یہی ہے۔ جب ہم سب کی سوچ یہی ہے تو کیسے اور کیوں کر سیاست ہمارا کام نہیں۔؟
بھائی نے ذومعنی نگاہوں سے مہردات کو دیکھا اور کہا کہ مہردات ابھی تمہاری عمر بہت کم ہے، آنے والے آٹھ ، دس سالوں میں ازخود یہ نتیجہ اخذ کرلوگے کہ سیاست ہم جیسوں کا کا م نہیں۔ اب جاکے آرام کرلو سویرے اٹھنا ہے۔
اپنے کمرے کی جانب جاتے ہوئے مہردات نے کہا کہ بھائی ممکن ہے کہ آپ کی یہ بات حقائق پہ مبنی ہو کہ یہ ہمارا کام نہیں۔
سالم، مہردات سے ہونے والی گفتگو کے بعد پریشان سا ہوگیا۔ اس نے سوچا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مہردات بھی اشرافیہ کے جھانسے میں پھنس جائے، جیسے۔۔۔ اور پھر۔۔۔ ماضی کی یادوں نے اس کی آنکھوں میں نمی پیدا کردی لیکن جذبات پہ قابو رکھتے ہوئے بوجھل قدموں اپنے کمرے کی جانب چل پڑا۔
سالم بستر پہ دراز ہوا لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کھوسوں دور تھا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر گراں ناز نے پوچھا کہ خیر تو ہے، کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہو؟
نہیں ایسی کوئی بات نہیں ، بس یونہی من بوجھل ہے۔
نہیں کچھ تو ہے۔ جب کام سے واپس آئے تو ہشاش بشاش تھے، لیکن اب تمہارے چہرے پہ ہوائیاں صاف دکھائی دے رہی ہیں۔
کیا مہردات نے کچھ کہا، ویسے تو وہ بڑا ہی فرمانبردار بچہ ہے ۔
سالم نے کہا نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں مہردات نے کچھ کہا نہیں۔ اور تمہیں یہ معلوم ہے کہ وہ گھر میں کسی سے بھی اونچی آواز میں بات تک نہیں کرتا۔
تو پھر وجہ کیا ہے کہ دنیا کے سارے غم تم نے اپنے دل و ماغ میں بسالیا۔
مغموم مسکراہٹ کے ساتھ سالم نے کہا کہ مہردات کی آج یونیورسٹی کا پہلا دن تھا اور پہلے دن ہی وہ سیاست کی باتیں کررہا تھا۔ اسے یہ معلوم نہیں کہ ابا نے اس راہ میں کس قدر تکالیف برداشت کیا۔ جب وہ داعی اجل کو لبیک کہہ رہا تھا تو کسی نے تیمارداری تو دور کی بات ان کا حال تک پوچھنا گوارا نہیں کیا۔
گراں ناز نے کہا کہ لیکن ابا نے تو آپسی مسائل، تنازعات اور اختلافات کی وجہ سے ان سے راہیں جدا کرلیا تھا، وگر نا اس کی سوچ تو آخر وقت تک یہی تھا کہ مزاحمتی سیاست کے بغیر بلوچستان کے مسئلے کا کوئی حل نہیں۔
سالم نے کہا کہ ہاں ابا نے اس امید پہ اس راستے کا انتخاب کیا تھا کہ ایک دن ہم آزاد ہوں گے اور آزادی کے لیے اس سے بہتر موقع نہیں، اور نہ ہی کوئی اور ذریعہ۔ لیکن ایک سوچ جو میں سمجھتاہوں کہ آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ ہے، شاہانہ مزاج، کہ یہ دستار فقط میرے ہی سر سجارہے اور دنیا کا کوئی بھی اشرافیہ اس سوچ سے نکلنے کو تیار نہیں ہوسکتا، ہاں البتہ چند ایک مثالیں ہمیں دیکھنے کو ملیں گی لیکن مجموعی صورتحال یہی ہے کہ جب تک قوموں کو اشرافیہ لیڈ کرتے رہیں گے، مقصد کا حصول ممکن ہی نہیں۔ بلکہ تحریک انتشار کا شکار ہوتا رہے گا۔ اور دوسری بات ابا نے راہ جدا نہیں کیا تھا البتہ ان کی اپنی ایک سوچ تھی، وہ شاید ان حالات میں بھی واپس ماضی کے دوستوں کے پاس چلا جاتا لیکن اس کی بیماری اس حد تک بڑھ گئی کہ اس کے لیے سفر کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔
گراں ناز نے کہا کہ ہماری بدبختی ہے کہ ہمارے ہاں مڈل کلاس بھی سطحی سیاست کے دائرے سے نکلنے کی کوشش نہیں کرتی، بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ اس طبقے کی سیاست بھی عوام کا لہو چھوسنے تک محدود ہے اور جنہوں نے لہو بہایا یہ طبقہ ان کا نام زینے کی طرح استعمال کرنے سے گریزاں نہیں۔ مطلب سیاست فقط ایک کاروبار بن کے رہ گیا ہے، کاروبار بھی ایسا جس میں عوام کا لہو بہایا جائے۔ گراں ناز نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا اللہ خیر کرے گا تم خود کو پریشان مت کرو۔ مجھے یقین ہے کہ مہردات تمہاری اور ماں کی اجازت کے بغیر کوئی ایسا قدم اٹھانے کی جرات بھی نہیں کرسکتا۔
سالم نے کہا کہ گراں ناز تمہیں تو معلوم ہے کہ جب ابا اس دنیا سے رخصت ہوگیا اس وقت مہردات فقط چار (4) سال کا تھا۔ اور ہم گھر والوں نے اس امید پہ آبائی علاقہ چھوڑ دیا کہ مہردات کو ان باتوں کی ہوا تک نہ لگے۔ حالانکہ تم جانتی ہو کہ ’’کولواہ‘‘ کی مٹی کی یاد سے میں اور ماں کس اذیت سے گزررہے ہیں۔ وہ علاقہ جہاں میرا بچپن اور جوانی گزرا، جہاں عزیز و اقار ب ہیں لیکن مہردات کے مستقبل کے لیے ہمیں یہ سب برداشت کرنا پڑا، کہ اگر وہ اس بات سے باخبر ہوا کہ میرا باپ تو آزادی کا سپاہی تھا اور وہ اس دور میں بھی جہاں لوگ روایتی سیاست سے نکلنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے، اس نے جدوجہد کیا اور فدا کے ساتھ مل کر جماعت بھی تشکیل دیا لیکن ازاں بعد اشرافیہ کے ساتھ ساتھ مڈل کلاس نے بھی ابا کو مایوس کیا۔ اور فدا کی شہادت کے بعد اس کی جو حالت تھی اس سے میں واقف ہوں کہ وہ کس کرب سے گزررہا تھا۔ اور ابھی گزشتہ چند سالوں سے ایک بار پھر آزادی کی تحریک شروع ہوئی ہے۔ گو کہ یہ تحریک ماضی کی نسبت مختلف شکل میں سامنے آیا ہے لیکن ماضی کے واقعات دیکھ کر مجھے اب کسی پر بھروسہ ہی نہیں رہا۔
سالم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج میں اگر مہردات کے لیے پریشان ہوں، تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تحریک کے کارکنان ہر جگہ موجود ہیں اوریہ وہ کارکنان ہیں جن کے پاس علم کی کمی نہیں، اور کوئی بھی ان کے دلائل سے قائل ہوسکتا ہے۔ مہردات تو ابھی بیس سال کا نوجوان ہے اور اس عمر میں زیادہ تر لوگ جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔۔۔ اور اگرمہردات نے بھی اس راستے کا انتخاب کیا تو ۔۔۔ازاں بعد اسے روکنا ممکن ہی نہیں۔ اگر میرے سامنے روشن ماضی ہوتا تو یقین کیجیے کہ میں ازخود اس کارواں کا حصہ بنتا، لیکن ماضی کی تلخیوں نے مجھے اس نہج پہ لاکھڑا کیا ہے کہ اشرافیہ ہو، چاہے مڈل کلاس۔۔۔ کسی پہ بھی بھروسہ کرنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ کیوں کہ ان کا ماضی دیکھ کر میں فقط اتنا ہی کہوں گا کہ یہ پریشر گوپس ہیں جو نوجوانوں کے خون سے کھیلنے کے بعد خود کے لیے ایوانوں میں جانے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ فدا کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کیسے اس کا نام استعمال کرکے انہوں نے مسندوں پہ قبضہ جمالیا۔ گراں ناز ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہی تھی، سالم دیر تک موضوع کو لیکر باتیں کرتارہا ، تاآنکہ ، نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
