تربت ( پریس ریلیز ) 20 نومبر 2024 کو بچوں کے عالمی دن کے موقع پر ایچ آر سی پی ریجنل آفس تربت مکران کے زیر اہتمام تربت آفس میں ایک ایڈوکیسی میٹینگ منعقد ہوئی جس میں خواتین و حضرات اور بچوں نے شرکت کی ۔
اس موقع پر پروفیسر غنی پرواز، نازخاتون ،محمد کریم گچکی، مقبول ناصر،عبدالغنی مندی،نائیلہ خدابخش ، سجاد حمید دشتی اور شہزاد احمد شامل تھے، اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔
شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر غنی پرواز نے کہاکہ بچے قوموں کے مستقبل ہوتے ہیں کیونکہ جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو آج کے جوانوں اور بوڑھوں کی جگہیں لے کر قوموں کو اپنے تمام شعبہاے زندگی میں زیادہ سے زیادہ ترقی دے سکتے ہیں ان ہی وجوہات کی بنا پر بچوں کے ماہرین اور زندہ قوموں اور ممالک خود بچوں اور ان کی زندگی اور مستقبل کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں،اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں ۔انہی حالات کے پیش نظر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے 20 نومبر 1989 کو ایک کنونشن ہوا جس کے ذریعے 54 دفعات پر مشتمل ایک عہد نامہ سامنے ایا جس کی پہلی دفہ کے مطابق بچے سے مراد وہ انسان ہوتا ہے جس کی عمر 18 سال سے کم ہو چاہے وہ بیٹی ہو یا بیٹا، تا ہم ممبر ملکوں کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہےکہ اگر وہ اپنے حالات کے مطابق چاہیں تو اس میں کمی کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان نے اپنے آئین میں بیٹی کی عمر 14 سال اور بیٹے کی عمر 16 سال مقرر کی ہے چنانچہ مذکورہ عہدنامے کے مطابق بچوں کے بہت سارے حقوق ہوتے ہیں ۔
انھوں نے کہاکہ بچوں کا حق ہے کہ وہ اس وقت تک اپنے والدین کے ساتھ رہیں جب تک کہ ان کے ساتھ رہنا ان کے لیے نقصاندہ نہ ہو ۔ان کا حق ہے کہ والدین کی علیحدگی کی صورت میں وہ کسی نہ کسی طرح سے دونوں سے رابطے رکھ سکیں۔ان کا حق ہے کہ انہیں اچھی تعلیم و تربیت دی جائے۔ان کا حق ہے کہ ان کی صحت کا اچھی طرح سے خیال رکھا جائے۔ان کا حق ہے کہ ان سے ایسا کوئی کام نہ لیا جائے جس سے ان کی تعلیم اور صحت متاثر ہوں۔ان کا حق ہے کہ گھروں میں بھی "چائلڈ ورک” کے حوالے سے ان پر غیر ضروری بوجھ نہ ڈالا جائے۔ان کا حق ہے کہ ان سے مشقت طلب کام نہ لیا جائے جو عام طور پر کارخانوں، فیکٹریوں ، ہوٹلوں اور گیرجوں میں لیا جاتا ہے۔
ان کا حق ہے کہ انہیں "چائلڈ ابیوز "کے حوالے سے تمام غیر اخلاقی سرگرمیوں سے بچایا جائے۔انہیں اغواہ ،خرید و فروخت ،اسمگلنگ، جنسی تشدد اور اسی نوعیت کی دیگر سرگرمیوں سے بچایا جائے۔قیدی بچوں کا حق ہے کہ انہیں قید کے دوران بڑے قیدیوں سے الگ رکھا جائے۔قیدی بچوں کا حق ہے کہ انہیں ضرورت کے وقت قانونی امداد فراہم کیا جائے۔قیدی بچوں کا حق ہے کہ انہیں اپنے والدین اور خاندان کے دیگر قریبی لوگوں سے ملنے کا موقع دیا جائے۔
انھوں نے کہاکہ اقلیتی بچوں کا حق ہے کہ انہیں اپنے مذہب و عقائد کے مطابق تعلیم و تربیت دی جائے۔تمام بچوں کا حق ہے کہ انہیں منشیات کی پیداوار استعمال اور خرید و فروخت سے محفوظ رکھا جائے۔تمام بچوں کا حق ہے کہ انہیں جنگوں سے محفوظ رکھا جائے اور جنگوں کے دوران انہیں کسی قسم کا نقصان نہ پہنچایا جائے۔
تا ہم دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ دنیا بھر میں اور خصوصاً ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں انہیں اپنے یہ جائز حقوق پورے طور پر فراہم نہیں کیے جاتے۔
مثال کے طور پر پاکستان میں لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں،لاکھوں بچے کارخانوں ،فیکٹریوں ،ہوٹلوں اور گیرجوں میں محنت مشقت کر رہے ہیں،لاکھوں بچے اغوا ہو کر جبری طور پر لاپتہ ہو چکے ہیں جن میں سے ہزاروں کی تعداد میں قتل بھی ہو چکے ہیں،لاکھوں بچوں کو اغوا کر کے عرب ممالک لے جایا جا چکا ہے جنہیں وہاں پر اونٹ دوڑ کے لیے استعمال کیا جا چکا ہے،اور لاکھوں بچوں کو اغوا کر کے مغربی ممالک لے جایا جا چکا ہے جہاں ان کے مختلف اعضاء پیوند کاری کے لیے استعمال کیے جا چکے ہیں اور یہ سارا سلسلہ ابھی تک جاری ہے،جبکہ فلسطین اور اسرائیل کی جنگوں کے دوران لاکھوں بچوں کو جانوں سے مارا جا چکا ہے،خصوصا اسرائیل کے جنگی حملوں کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی اور لبنانی بچے جانوں سے مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں بچے معذور بھی ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ بھی مسلسل جاری ہے،
ضرورت اس بات کی ہے پاکستان، فلسطین اور لبنان سمیت دنیا بھر میں نہ صرف بچوں کو انکے جائز حقوق فوری طور پر فراہم کیے جائیں بلکہ انہیں ہر قسم کے نقصانات سے بھی محفوظ رکھا جائے تاکہ بڑے ہو کر وہ دنیا اور انسانیت کی ترقی کے لیے اپنا ضروری کردار ادا کر سکیں ۔
چھوٹی بچی ناز خاتون نے انگلش میں بات کرتے ہوئے کہا کہ بچے من کے سچے ہوتے ہیں وہ جیسا دیکھتے ہیں ویسا ہی سیکھتے ہیں لہذا ہمارے مستقبل کے لیے ایک صحیح تعلیم و تربیت کا ماحول بنایا جائے۔
محمد کریم گچکی کا کہنا تھاکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ بچے فطرت سلیم لے کر آتا ہے اسے والدین صحیح اور غلط انسان بناتے ہیں،
بچے کی پہلی تعلیم و تربیت گاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے وہ جیسے بچے کی تربیت کرے گا ویسا ہی بچہ سیکھے گا دوسرے ممالک میں ریاست بچوں کی 18 سال کی عمر تک ذمہداری اٹھاتی ہے لیکن ہمارے ملک میں حقوق نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور بہت سے لوگ ہیں جو بچوں میں فرق پیدا کرتے ہیں یہ ایک غلط روایت ہے لڑکے اور لڑکیاں دونوں کو ایک ہی نظر میں دیکھنا چاہیے۔
مقبول ناصر کا کہنا تھا کہ ہمارا معاشرہ جنگ زدہ ہے ہمیں انٹرٹینمنٹ کے لیے کوئی چیز میسر نہیں اکثر لوگ انٹرٹینمنٹ کے لیے یا تو جنگ کرتے ہیں یا افزائش نسل بڑھاتے ہیں، ایچ ار سی پی کو چاہیے کہ وہ جنگ زدہ علاقوں میں بچوں کے حقوق کی پامالی کو روکنے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کرے اور ایک ٹیم بنائے جو ہمیشہ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرے۔
عبدالغنی مندی کا کہنا تھا کہ بچوں کے جتنے بھی حقوق ہیں وہ قانوناً تو موجود ہیں لیکن عملی طور پر پامال ہو رہے ہیں اور ان کی پامالی کی سب سے بڑی صورت انکو لاگو نہیں کرنا ہے،حکومت کو چاہیے کہ بچوں کا عہد نامہ اسکولوں کے نصابوں میں شامل کرے ۔
نائیلہ خدا بخش کا کہنا تھا کہ بچوں کے جتنے حقوق ہیں وہ تو ہمیں پتہ ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں امیروں کے بچوں کے لیے تو حقوق لاگو ہوتے ہیں لیکن غریبوں کے بچوں کے لیے حقوق نام کی کوئی چیز نہیں ہے اسکولوں اور ریڈیو اسٹیشنوں کے سربراہوں کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے اداروں میں بچوں کے عالمی دن کے مناسبت سے پروگرام کریں۔
سجاد حمید کا کہنا تھا کہ بچوں کے عالمی دن لوگوں میں شعور و اگاہی پیدا کرنے کے لیے منایا جاتا ہے لیکن جو میڈل کلاس لوگ ہیں وہ غریبی کی وجہ سے بچوں کے بنیادی حقوق بمشکل پورا کرتے ہیں۔
شہزاد احمد کا کہنا تھا کہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے باتیں تو بہت ہوتی ہیں لیکن اب اس سلسلے میں عملی طور پر بھی کام ہونا چاہیے۔
آخر میں اتفاق رائے سے 4 قراردادیں منظور کر لی گئیں ۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے منظور کردہ بچوں کے حقوق کا عہد نامہ اسکولوں کے نصابوں میں شامل کیا جائے۔
اسکولوں اور ریڈیو اسٹیشنوں میں ہر سال بچوں کا عالمی دن منایا جائے۔
کم از کم میٹرک تک تعلیم مفت کی جائے اور طلبہ کو وضائف فراہم کیے جائیں اور اس سلسلے میں متاثرہ اور یتیم بچوں کو ترجیح دی جائے۔
ایچ ار سی پی کی جانب سے ایک سروے کمیٹی تشکیل دیکر اسے فنڈنگ کی جائے جو تمام آپریشنوں کے دوران متاثرہ بچوں ،اغوا ہونے والے بچوں،ہلاک ہونے والے بچوں،زخمی ہونے والے بچوں اور معذور ہونے والے بچوں کے اعداد و شمار جمع کرکے رپورٹیں شائع کردے۔