آواران ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے جاری بیان میں کہاہے کہ رواں سال کے شروع میں 2 مئی کو جبری لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین – سجاد عظیم، ولی جان اور حاصل خان کو اغوا کیا گیا، 26 اپریل کو علاقہ مکینوں نے متاثرین کے ساتھ، تین روزہ دھرنا دے کر ان ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کیاگیا ۔
انھوں نے کہاہے کہ جیسا کہ بلوچستان میں اکثر ہوتا ہے، حکام نے ان ہولناک جرائم پر توجہ دینے کے بجائے ان خاندانوں کے افراد کو تشدد اور ذلیل کرنے کا سہارا لیا ہے جو محض پرامن زندگی گزارنے کے اپنے بنیادی حق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حال ہی میں مشکے میں تعینات سکیورٹی فورسز نے خواتین اور بچوں سمیت ان خاندانوں کو زبردستی فوجی کیمپوں میں بلا کر ان کی ہراسانی میں اضافہ کیا ہے۔
ترجمان نے کہاہے کہ اس طرح کے عمل بلوچستان میں خطرناک حد تک عام ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جو طویل فوجی محاصرے اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کا شکار ہیں۔ ان میں فوجی کیمپوں میں خواتین کی تذلیل اور بلوچ مردوں کی جبری مشقت شامل ہے۔ تشدد کی یہ گھناؤنی کارروائیاں، جبری گمشدگیاں اور جبری مشقت جاری بلوچ نسل کشی کے واضح اشارے ہیں۔
انھوں نے کہاہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی بلوچ قوم کی ایک جائز آواز کے طور پر ان جرائم کی شدید مذمت کرتی ہے اور پہلے سے مظلوم اور محروم بلوچ عوام کے خلاف ایسے مظالم کو فوری بند کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ ہم تمام باضمیر افراد اور برادریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان جرائم کا نوٹس لیں اور ان کی مزاحمت کریں۔ یہ صرف انسانی حقوق کا نہیں بلکہ عزت اور وقار کا بھی معاملہ ہے، خاص طور پر جب ہماری خواتین کو فوجی کیمپوں میں اس طرح کی تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔