غلامی استحصال کو جنم دیتی ہے اور استحصال غربت کو۔ اسی لیے، استحصال قابض کا سب سے مؤثر ہتھیار ہوتا ہے۔ قابض، مقبوضہ قوم کے قدرتی وسائل کو لوٹ کر انہیں ہر سطح پر غریب اور پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی بنیادی ضروریات میں ہی الجھ کر رہ جائیں اور کبھی سنبھل نہ سکیں۔ اس طرح وہ اپنے اصل مسئلے یعنی قومی غلامی اور اغیار کی لوٹ کھسوٹ کی طرف توجہ نہیں دے سکتے۔
میری نظر میں، کامریڈ حمیدہ بلوچ کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ ان کے معاملے میں بھی غلامی نے استحصال کو جنم دیا، پھر استحصال نے غربت اور پسماندگی کو پروان چڑھایا، اور آخر میں غربت و غلامی نے انہیں ابدی نیند سلا دیا۔ لہٰذا، ہمیں حمیدہ بلوچ کی جسمانی بیماری کے ساتھ ساتھ اس اصل بیماری کی جانب توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جو غلامی اور استحصال کی صورت میں ان کی زندگی پر اثر انداز ہوئی۔
یہ اسی قبضہ گیریت کا نتیجہ تھا کہ حمیدہ بلوچ کی کم عمری میں شادی کردی گئی، جب وہ کھیلنے کودنے کی عمر میں تھیں۔ اسی غلامی نے انہیں کم عمری میں سڑکوں پر قومی استحصال کے خلاف جدوجہد کرنے پر مجبور کیا۔
یہی کچھ حمیدہ بلوچ کی داستان ہے۔ ان کا تعلق اواران سے تھا۔ پورے بلوچستان کی طرح مشکے اور اواران کے حالات بھی خراب ہو گئے اور حمیدہ بلوچ کے ایک بھائی کو شہید کر دیا گیا۔ اس کے بعد اواران میں ان کے خاندان کے لیے زمین تنگ کر دی گئی، جس کے نتیجے میں ان کا خاندان وندر منتقل ہو گیا۔ وہاں، حمیدہ بلوچ نہ صرف سیاسی طور پر متحرک ہوئیں بلکہ تعلیم کے لیے اوتھل یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور (بساک) کی زونل عہدیدار بن گئیں۔
ان کے ایک اور بھائی کو جبری طور پر گمشدہ کر دیا گیا۔ یہ سانحہ حمیدہ کے لیے ایک ناقابل برداشت صدمہ تھا۔ اپنے بھائی کی جبری گمشدگی نے ان کے اندر ایک نہ ختم ہونے والا عزم پیدا کیا اور انہوں نے ان کی بازیابی کے لیے دن رات ایک کر دیے۔ یہ جدوجہد ان کے کردار کا ایک ایسا پہلو اجاگر کرتی ہے جس نے انہیں محض ایک عام فرد سے بڑھا کر ایک عزم و حوصلے کی علامت بنا دیا
خاندانی ذرائع کے مطابق ، جس انسان نے ان کے ساتھ زندگی بھر کا وعدہ کیا تھا، اس نے صرف اس وجہ سے حمیدہ سے علیحدگی اختیار کی کہ ان کا اور ان کے خاندان کا جھکاؤ قوم پرستی کی طرف کیوں ہے۔ اس فیصلے نے حمیدہ کے لیے ایک نیا راستہ کھول دیا، جس میں انہوں نے انفرادی خوشیوں کے بجائے اپنی قوم کے ساتھ کھڑے ہونے کو ترجیح دی۔ انہوں نے اپنے ذاتی تعلقات اور آسائشوں سے دستبردار ہو کر اپنی قوم کے حقوق کے لیے ایک ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔
حمیدہ بلوچ کے دو معصوم بچے تھے جو ان کے ساتھ رہتے تھے۔ حمیدہ نے ہر ممکن طریقے سے ان کا خیال رکھا اور انہیں شال میں رکھا تاکہ وہ تعلیم حاصل کر سکیں۔ اس دوران، سرزمین کو درپیش ہر ظلم و جبر کے خلاف وہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹی رہیں۔ مگر شومئی قسمت کہ کینسر جیسے موذی مرض نے انہیں اچانک گھیر لیا۔
بچوں کی پیدائش کے وقت، مناسب میڈیکل سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے حمیدہ کے جسم میں ورم کو انفیکشن لگ گیا، جو بعد میں کینسر کی شکل اختیار کر گیا اور آہستہ آہستہ ان کی موت کا سبب بنا۔ انہیں شروع سے اس درد کا علم تھا مگر وہ اسے برداشت کرتی رہیں اور خاموش رہیں۔ کبھی بھی شکایت نہیں کی اور ہمیشہ سیاسی طور پر متحرک رہیں۔ حتیٰ کہ آخری وقت تک بھی وہ ایک جنگجو کی طرح کھڑی رہیں۔
وہ اپنی بیماری کو چھپانا چاہتی تھیں، یہاں تک کہ بیماری کی وجہ سے مالی مشکلات نے انہیں گھیر لیا مگر انہوں نے اپنے خاندان کو سختی سے منع کیا کہ یہ بات لوگوں کو نہ پتہ چلے۔
حمیدہ بلوچ اس سرزمین کی باسی تھیں جہاں سے سونا، چاندی اور گیس سمیت ہر طرح کی معدنیات نکلتی ہیں۔ ان وسائل کی لوٹ کھسوٹ سے قابض کا سپاہی، جو آتے وقت ایک معمولی وردی میں ہوتا ہے، واپسی پر اتنی دولت جمع کر لیتا ہے کہ جزیرے خریدنے کی طاقت رکھتا ہے۔ مگر اسی زمین کی بیٹی، حمیدہ بلوچ، کے لیے اپنے علاج کے اخراجات پورے کرنا ممکن نہ ہو سکا۔ یہ حقیقت ایک تلخ سچائی ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال اس سرزمین پر ایسی بیٹیاں غربت اور بیماری کی نظر ہو جاتی ہیں۔
میرے نزدیک، حمیدہ کا قتل دراصل قومی غلامی اور قابض کے استحصال کا نتیجہ ہے۔ ان کی قبر میرے لیے اس ستم اور ظلم کی ایک علامت ہے، جو دشمن نے ہماری سرزمین اور ہمارے لوگوں پر مسلط کر رکھی ہے۔ حمیدہ بلوچ کی قبر ان تمام لوگوں کے لیے پیغام ہے جو اس قبضے اور استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ یہ قبر ایک ایسی گواہی ہے جو اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ قوم کی آزادی اور وسائل کی خود مختاری کے بغیر، ہماری بیٹیوں کے نصیب میں یہی محرومیاں اور ناانصافی رہیں گی۔