ڈاکٹر ذاکر۔۔۔ نائک یا کلنائک (ولن) : تحریر: دل مراد بلوچ

ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک مشہور مسلم ہندوستانی خطیب ہیں، جو شدت پسندی، مذہبی بنیاد پرستی اور دہشت گردی کو فروغ دینے کے الزامات کے تحت ہندوستان جیسے کثیرالمذاہب ملک سے فرار ہیں۔ بنگلہ بندھو شیخ مجیب کے بنگلہ دیش میں بھی ان کے خلاف شدید ناپسندیدگی پائی جاتی ہے کیونکہ ایک دہشت گرد حملے میں ملوث تمام افراد نائیک کے مداح اور متاثر تھے، جس کے نتیجے میں وہ داعش میں شامل ہو گئے۔ اس وقت موصوف ملائیشیا میں پرآسائش جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور آج کل پاکستان کے سرکاری دورے پر ہیں، جہاں وہ اس "اسلامی” ملک کو مزید "مسلمان” بنانے کے لیے عالی شان انتظامات کے زیر سایہ تقریریں جھاڑ رہے ہیں ۔ ان کے پیروکار انہیں ذہین سمجھتے ہیں، جن کی ذہانت (یاد داشت) پر لوگ عش عش کرتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کیا ذاکر واقعی ذہین و فطین ہیں یا صرف ایک مضبوط یادداشت کے مالک ہیں؟ آئیے، اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

خضدار میں ایک یعقوب نامی نوجوان تھا، جس نے کبھی اسکول میں قدم نہیں رکھا تھا لیکن اس کی یادداشت حیران کن حد تک مضبوط تھی۔ اسے قبائل اور قبائلی سرداروں سمیت دوسرے بڑے خانوادوں کے شجرہ نسب، سیاستدانوں کی تفصیلات اور مقامی تاریخ زبانی یاد تھی۔

یعقوب کورا ان پڑھ تھا، لیکن نہ صرف پڑھنا جانتا تھا بلکہ اردو اخبار کو بلوچی اور براہوئی زبانوں میں حرف بہ حرف ایسے پڑھتا تھا جیسے یہ اخبار انہی زبانوں میں چھپا ہو۔ وہ شرارتی بھی تھا، کبھی کبھار اخبار کو الٹا پکڑ کر بھی پڑھتا تھا۔ موبائل کا زمانہ نیا نیا شروع ہوا تھا، اسے سینکڑوں ٹیلی فون نمبر یاد تھے۔ وہ بتا سکتا تھا کہ کون سا سردار یا سیاستدان کب اور کہاں پیدا ہوا، کب الیکشن لڑا، کتنے ووٹوں سے جیتا یا ہارا۔ کس کس سیاستدان کس لیڈر کے بارے میں کب اور کیا کہا، لوگ حیران تھے کہ ایک ان پڑھ شخص اتنی زبردست یادداشت کیسے رکھ سکتا ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یعقوب ذہین نہیں بلکہ محض ایک "میموری کارڈ” تھا، جو صرف یاد (سیو) کرتا اور وہی دہراتا تھا، بغیر کسی تخلیقی صلاحیت کے۔ لیکن کچھ لوگ اس سے زیادہ متاثر تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ ایک بڑا لیڈر بنے گا۔

میں خضدار میں اپنے گناہوں کی سزا کچھ ایف آئی آر کی صورت میں بھگت رہا تھا، جیل اور ایف آئی آر کے چکر کاٹ رہا تھا۔ مجھے ایس ایچ او نال سے کچھ کاغذات پر دستخط لینے تھے۔ جب میں نے انہیں فون کیا تو انہوں نے بتایا، "میں سول ہسپتال خضدار آ رہا ہوں، وہاں آ جانا۔” جب میں سول ہسپتال پہنچا تو نال پولیس دو لاشیں لا چکی تھی، جو ایمرجنسی وارڈ کے برآمدے میں فرش پر رکھی ہوئی تھیں۔ ایس ایچ او نے کہا، "تم بھی جا کر دیکھو، کہیں لاپتہ افراد میں سے نہ ہوں۔” میں نے لاشوں کو دیکھا، لیکن وہ میرے پہچان کے نہیں تھے۔

قریب ہی ڈاکٹر اقبال کا کلینک تھا۔ میں نے جا کر انہیں اطلاع دی کیونکہ ان کے کچھ قریبی لوگ "جبری لاپتہ” تھے اور وہ بھی دیکھنے آئے لیکن وہ بھی لاشوں کو نہیں پہچان سکے۔ اسی دوران خضدار کینٹ سے ایک بریگیڈیئر اپنی فورس کے ساتھ پہنچا۔ انہوں نے خوب جائزہ لیا، یہاں تک کہ لاشوں کی جیبوں میں لگی درزی کے لیبل تک چیک کیے اور پھر کہا، "جن لوگوں نے انہیں مارا ہے، انہوں نے کوئی چھوٹی سی نشانی بھی نہیں چھوڑی ہے۔” ان کے لیے بھی صورتحال واضح نہ ہو سکی اور وہ واپس چلے گئے۔

اسی دوران یعقوب بھی پہنچ گیا۔ جیسے باقی لوگ لاشوں کو دیکھ رہے تھے، یعقوب نے بھی دیکھا۔ اس نے جیسے ہی لاشوں کے چہرے سے چادر ہٹائی، تو ذرا تلخ لہجے میں ایس ایچ او سے کہا، "لاشوں کی ایسی بے حرمتی اچھی بات نہیں ہے۔” ایس ایچ او نے جواب دیا، "ہمارے پاس یہی چادریں تھیں، ہم نے وہی ڈال دی ہیں، اور کیا کر سکتے تھے؟

"میں کچھ فوٹو کاپی کروانے نکلا لیکن جلد ہی واپس ہسپتال آیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ لاشیں فرش سے ہسپتال کے اندر منتقل ہو چکی تھیں، فوج کا ایک بڑا دستہ پہنچ چکا تھا، برف کی سلیں اور تابوت پہنچ گئے تھے اور سینئر ڈاکٹر اور اسٹاف چابک دستی سے انتظام و انصرام میں مصروف تھے۔ میں اچانک اس تیزی سے ہونے والی پیش رفت پر حیران سا رہ گیا۔ ایک جاننے والے اسٹاف اہلکار نے بتایا کہ یعقوب نے جیسے ہی لاشوں کو دیکھا، خاموشی سے اندر جا کر ڈاکٹر سے کچھ کہا اور اس کے بعد یہ فوجی دستہ آیا اور یہ سارا انتظام تیزی سے ہونے لگا۔

دوسرے روز اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ بی ایل ایف نے بیسمہ سے گرفتار کیے گئے دو پاکستانی فوجیوں کو گریشہ میں ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ یعنی بریگیڈیئر صاحب اپنے پیٹی بند بھائیوں کو پہچان نہ پائے، جبکہ یعقوب۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یعقوب پنجاپی بریگیڈیئر سے زیادہ ذہین ثابت ہوا۔ چند دن بعد ایک اور خبر سامنے آئی کہ بی ایل اے نے یعقوب کو غداری کے الزام میں ہلاک کر دیا ہے۔ اس وقت روزنامہ انتخاب میں امان اللہ گچکی کالم لکھا کرتے تھے۔ ایک کالم کی تمہید یعقوب کے نام پر تھی اور امان اللہ اُس کالم میں رو رہا تھا۔

میں نے اپنی زندگی میں یعقوب جیسی یادداشت رکھنے والا آدمی آج تک نہیں دیکھا۔ لیکن سوال یہ ہے کیا یعقوب واقعی ذہین تھا؟ کیا یعقوب کی ذہانت سے بلوچوں، خضدار، یا اس کے پسماندہ آبائی گاؤں کو کوئی فائدہ پہنچا؟ میرے خیال میں، ذہانت کا پیمانہ صرف بڑی یادداشت نہیں ہو سکتی۔ ذہانت وہ ہوتی ہے جس میں خیر ہو، فلاح ہو اور جس سے انسانیت کا بھلا ہو۔

موجودہ دور میں یاد داشت کا بڑا خزانہ جناب ڈاکٹر ذاکر نائیک اس وقت پاکستان کا سرکای دورہ فرما رہے ہیں۔ ایک عملی عقیدت والے مسلمان کے لیے پہلا سوال تو یہ ہونا چاہئے کہ زمین کے صرف اس ٹکڑے کو "پاکستان” کیوں کہا جاتا ہے؟ کیا بقیہ زمین ناپاک ہے؟ دوسرا سوال یہ کہ مطالعہ پاکستان بتاتا ہے کہ پاکستان کا مطلب ہے "لا الہ الا اللہ”۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وحدانیت کے اقرار کے کلمات کسی ملک کے معنی یا نام کے ہم معنی ہو سکتے ہیں؟ ان سوالوں کے لیے کوئی امید نہ رکھے تو بہتر رہے گا۔

کیا ڈاکٹر ذاکر نائیک واقعی مسلمانوں کی خیر خواہی اور فلاح کے لیے کام کر رہے ہیں؟ آج مسلمانوں کا قبلہ اول، فلسطین، جل رہا ہے۔ غزہ کی چالیس کلومیٹر کی پٹی، جہاں بائیس لاکھ مسلمان مبحوس تھے، اب یہ جیل خانہ بھی تہس نہس ہو چکی ہے۔ "اسلام کا قلعہ” پاکستان کی فوج بھی اپنے ہی "مسلمان بھائیوں” کا قتل عام کر رہی ہے لیکن کیا ڈاکٹر نائیک نے اس پر ایک لفظ بھی کہا ہے یا کہنے کا ارادہ ہے؟ موصوف کا بنیادی موقف صرف مسلمان شناخت اور حقانیت ہے، اگر مذہب کسی قوم کی شناخت بن سکتا ہے، تو پھر ایک کلمہ گو مسلمان کیوں ستاون مختلف شناختوں پر اصرار کر رہا ہے؟ جہاں اسلام کا جنم ہوا، اس ریاست کے نام کے ساتھ آج بھی "اسلام” بطور شناخت شامل نہیں، ذاکر اس کا کچھ ذکر فرمائیں گے؟

ذاکر نائیک: ذہین یا محض یادداشت کا ڈیوائس؟

کراچی میں موصوف تقریر کر رہے تھے، موضوع اسلامی میڈیا تھا اور وہ اس میدان میں مسلمانوں کی مایوس کن کارکردگی پر بہت نالاں تھے۔ یاد داشت کا عالم دیکھیے اس آدمی کو دنیا بھر کے کیمروں کے نام اور ماڈل سمیت چھوٹی چھوٹی تیکنیکی چیزیں یاد ہیں۔ بغیر کسی کاغذ یا نوٹس کے بینڈوڈتھ، میگابائٹ، گرافکس، سیٹلائٹ، براڈکاسٹ انڈسٹری کے بہترین کیمرے، ڈیجیٹل بیٹا کیم، اردو، انگریزی، بنگلہ زبان میں نشریات کرنے والی اپنی "پیس ٹی وی” کی ناظرین کی تعداد اور کیمروں کی ریزولوشن کا تذکرہ ایسے کر رہے تھے جیسے بہتا ہوا پانی۔ میں نے پہلی بار سنا کہ ڈیجیٹل پروڈکشن کی بھی کوئی شیلف لائف ہوتی ہے۔

موصوف اپنی پروڈکشن کی شیلف لائف بڑھانے کے لیے ہندوستانی کرنسی میں سات کروڑ روپے کی قیمت والے 18 کیمروں کے مالک ہیں۔ ان کا ٹی وی چینل 15 سیٹلائٹس پر نشر ہوتا ہے۔ باتوں باتوں میں ڈاکٹر ذاکر نے پاکستان کو دال کا باؤ بتا دیا کہ جس معیار کے کیمرے ان کے پاس ہیں، پاکستان کے پاس ایک بھی نہیں۔ لیکن یہیں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ سوشل میڈیا جیسی جدید "شیطانی” ایجاد کو جنت کا وسیلہ قرار دیا۔ انہیں سوشل میڈیا کے تمام اصول، الگورتھم، شیڈو بینڈ، گروتھ ریٹ، اور یوٹیوب سمیت ہر پلیٹ فارم پر ویورز کی تعداد زبانی یاد تھی۔ انہیں اے آئی (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) جیسے "شیطانی ایجاد” کا بھی بخوبی علم تھا اور وہ اس کے تمام تکنیکی پہلو فی البدیہہ بیان کرتے رہے۔

انہیں تیل، جسے موصوف "بلیک گولڈ” یا "کالا سونا” کہتے ہیں، کی دولت کے باوجود مسلمانوں کی بدحالی اور یہودیوں کے دنیا پر غلبہ کرنے پر شدید غصہ تھا۔ انہوں نے یہودیوں کو دوزخ کا سرٹیفکیٹ تھما دیا لیکن یہ کہنا گوارا نہیں کیا کہ یہودی کس آلہ دین کی چراغ سے دنیا کو کنٹرول کر رہے ہیں جبکہ مسلمان دن بہ دن بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر ایک انسان اتنی زیادہ معلومات کیسے یاد رکھ سکتا ہے؟ کیا یہ کسی ذہین انسان کی خصوصیت ہے یا محض ایک میموری ڈیوائس کا کارنامہ؟

اس آدمی نے متذکرہ جدید آلات کے خالقوں یا موجدین پر ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ نہ ایجادات، نہ ہی ان کی ضرورت پر بات کی۔ مسلمانوں کی سائنس کے میدان میں صفر کارکردگی پر بھی ایک جملہ تک نہیں کہا سارا زور صرف اس بات پر تھا کہ کافروں کی ایجادات کو ان کے خلاف استعمال کرتے ہوئے اپنے دین کا بول بالا کیسے کرنا ہے۔

انہیں اس بات کی پرواہ تک نہیں کہ آج کے جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں مسلمانوں کے کھاتے میں ایک بھی ایجاد نہیں۔

اس فہرست پر ایک نظر ڈالیں۔

ای میل (Email)

ویب براؤزرز (Web Browsers)

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز (Social Media Platforms)

ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارمز (Video Sharing Platforms)

آن لائن میسجنگ پلیٹ فارمز (Online Messaging Platforms)

ویڈیو کانفرنسنگ سافٹ ویئر (Video Conferencing Software)

کلاؤڈ کمپیوٹنگ پلیٹ فارمز (Cloud Computing Platforms)

ایمازون ویب سروسز (Amazon Web Services – AWS)

مائیکروسافٹ ایزور (Microsoft Azure)

آن لائن شاپنگ پلیٹ فارمز (Online Shopping Platforms)

آن لائن پیمنٹ سسٹمز (Online Payment Systems)

آن لائن کوڈنگ پلیٹ فارمز (Online Coding Platforms)

ڈیٹا بیس مینجمنٹ سسٹمز (Database Management Systems)

مائیکروسافٹ ایس کیو ایل سرور (Microsoft SQL Server)

کلاؤڈ سٹوریج پلیٹ فارمز (Cloud Storage Platforms)

درجہ بالا حیرت انگیز ایجادات کے بغیر آج کی دنیا کا تصور ہی ناممکن ہے، لیکن ان میں سے ایک بھی ایجاد مسلمانوں کی نہیں ہے۔ مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں، اور ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ(مسلمان) اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ باقی دنیا کو چھوڑ دیں، صرف مسلمانوں کے دو بڑے "دشمن” یعنی امریکہ اور اسرائیل سالانہ بالترتیب ایک لاکھ اکتالیس ہزار نو سو بیس ارب روپے اور دو کھرب اکسٹھ ارب روپے نئی ایجادات اور اختراعات پر خرچ کرتے ہیں۔ امریکہ کی آبادی 33 کروڑ ہے جبکہ اسرائیل کی آبادی صرف 97 لاکھ ہے۔

آج امریکہ تحقیق و ترقی اور اختراعات کے شعبے میں دنیا کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کرتا ہے جبکہ اسرائیل اپنی کل قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً بیس فیصد صرف سائنس اور ٹیکنالوجی پر خرچ کر کے "اسٹارٹ اپ نیشن” کہلاتا ہے۔

ذاکر نائیک کو صرف ان ایجادات کا نام اور کام یاد ہیں، لیکن انہیں یہ توفیق نہیں کہ مسلمانوں کو ایک آدھ ترغیب دیں کہ وہ اس اہم میدان میں کچھ سوچیں اور آگے بڑھیں۔

کیا یہ شخص کسی بھی سماج کا خیر خواہ ہو سکتا ہے؟ ان کا نام لو تو "شدید” مسلمان کاٹنے کو دوڑتا ہے۔

ذاکر۔۔۔ نائک یا کلنائکڈاکٹر ذاکر نائیک

اپنے شدت پسندانہ رویے اور دہشت گردی کو فروغ دینے کی الزامات پر ہندوستان سے فرار ہیں، جہاں پولیس ان کی واپسی کا انتظار کر رہی ہے۔ پاکستان، جہاں اسلام ریاستی مذہب ہے اور عوام کی اکثریت مسلمان ہے، یہاں ڈاکٹر صاحب کیا کرنے آئے ہیں؟ پاکستان میں اسلام کا دفاع چہ معنی دارد؟ بطور ریاستی مہمان، ذاکر نائیک صرف اور صرف مذہبی شناخت پر اصرار کر رہے ہیں، محکوموں کو دنیا اور معروض سے بیگانہ کرنے کی پاکستان کی جاری ریاستی پالیسی کو تقویت دے رہے ہیں اور جارحانہ کاروائیوں کو جائز قرار دینے کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ درحقیقت، وہ پاکستان کی منافقانہ فرقہ واریت، نام نہاد نظریاتی لبادہ اوڑھے محکوم و مقبوضہ قوموں کے خلاف عسکری جارحیت اور قتل عام کو جائز و قبول عام بنانے کے لیے اپنی یادداشت کا ایک حصہ پاکستانی فوج کی جھولی میں ڈالنے آئے ہیں۔

ادھر ہندوستان ایک کثیرالمذاہب اور کثیر الادیان ملک ہے۔ حقیقت میں، ہندوستان تہذیبوں کا ایک حیرت انگیز سمندر ہے، جہاں ہر قسم کے مذاہب اور ادیان کی فراوانی ہے، سماوی، غیر سماوی، آستک، ناستک، بت پرست اور توحید پرست۔ صدیوں سے، ہندوستان جیسے ملک میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، بدھ مت، جین اور دیگر مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں۔ اس ملک میں مذہبی رواداری ہمیشہ سے ایک بنیادی عنصر رہی ہے۔ ذاکر جیسے بنیاد پرست اور شدت پسند ضرور موجود ہیں لیکن بڑے بڑے رِشی، منی، گرو، اور مسلمان علما نے ہمیشہ مذہبی ہم آہنگی، مذہبی رواداری اور مذہبی نظریات کا احترام کیا اور ایک دوسرے کے عقائد کے احترام کرنے کے لیے کام کیا ہے۔ یہ روایت آج بھی جاری ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، حسرت موہانی، اے پی جے عبدالکلام سے لے کر آج کے عارف محمد خان اور شہرہ آفاق فنکار عامر خان تک، خود مسلمانوں کی ایک طویل فہرست ہے جو مذہبی ہم آہنگی کے لیے کام کرتی آئی ہے۔

ایسے سماج میں، ڈاکٹر ذاکر نائیک کا رویہ، دوسرے مذاہب کو سرے سے رد کرنا اور انہیں باطل قرار دینا، ہندوستان کے تنوع پسند سماج کے لیے زہر قاتل ہے۔ اگر صرف مسلمانوں کی بات کی جائے تو ہندوستانی مسلمان کا پہلے ہی تقسیم ہند نے بھٹہ بٹھا دیا ہے اور رہی سہی کسر ذاکر جیسے کلنائک پوری کر رہے ہیں۔ وہاں اقلیتی مسلمانوں کو پہلے ہی شدید سماجی اور سیاسی دباؤ کا سامنا ہے اور انہیں دوسرے مذاہب اور سماجوں سے متنفر کرکے ذاکر نائیک ان مشکلات کو مزید بڑھا رہے ہیں۔

عمومی طور پر مسلمان سماج کی نفسیات عجیب ہے۔ جہاں اکثریت میں ہوں، وہاں مذہبی ریاست بنانے میں لگ جاتے ہیں اور جہاں اقلیت میں ہوں تو سیکولرازم کا داعی بن جاتے ہیں۔ اگر آپ اکثریت میں ہوں تو مذہبی ریاست آپ کا حق ہے لیکن یہی حق ہندو، سکھ، بدھ مت کے ماننے والوں کو کیوں حاصل نہیں؟ جواب یہ دیا جاتا ہے کہ وہ کافر ہیں اور انہیں سدھانا مسلمانوں کا کام ہے۔

تو صاحبو! یادداشت کا مالک ہونا یقیناً ذہانت کا ایک پہلو ضرور ہو سکتا ہے، لیکن حقیقی ذہانت وہ ہے جو کسی قوم، معاشرے، سماج یا انسانیت کی بھلائی کے لیے کام آئے۔ حقیقی ذہانت وہ ہے جو انسانیت کے مفاد میں تخلیقی اور اختراعی میدان میں کارآمد ہو۔ ذہین انسان ابن سینا تھے، جنہیں آج "طب کا باپ” کہا جاتا ہے گو کہ مسلمان ان کے ایمان کا ناپ تول کرتے رہے اور انہیں زندگی بھر قید و بند اور جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا۔ ذہین انسان لوئی پاسچر تھا، جس نے ویکسین ایجاد کی بنیاد رکھی۔ الیگزینڈر فلیمنگ نے اینٹی بائیوٹکس کی دنیا میں انسانیت پر احسانات کیے اور ایڈورڈ جینر نے چیچک کا خاتمہ کیا۔ مسلمانوں کے ایک اور معتوب ابن الہیثم نے بصریات کے میدان میں اہم دریافتیں کیں، جبکہ "کافر” تھامس ایڈیسن نے بلب ایجاد کرکے انسان کو اندھیرے سے نجات دلائی۔

صرف یادداشت کا خزانہ ہونا، چاہے یعقوب ہو یا ذاکر، دونوں کلنائک ہی ہیں۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

مستونگ کے مختلف علاقوں میں پاکستانی فورسز کی فوج کشی،بمباری جاری

پیر اکتوبر 7 , 2024
بلوچستان کے ضلع مستونگ میں آج الصبح سے پاکستانی فورسز کی فوج کشی جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق صبح سویرے سے ہیلی کاپٹروں کی مستونگ کے پہاڑی علاقوں میں مسلسل پروازیں جاری ہیں۔ کوہ ماران، کابو، تلخہ کاوی، غار و گردنواح میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ کی اطلاعات […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ