قوم پرستی اور وجودیت پر ایک مختصر تقابلی جائزہ ۔تحریر – دینار بلوچ

وجودیت اور قوم پرستی دو ایسے نظریات ہیں جو انسانی زندگی، شناخت، اور مقصد کے حوالے سے متضاد زاویے پیش کرتے ہیں۔ وجودیت فرد کی ذاتی آزادی اور بے مقصدیت پر زور دیتی ہے، جبکہ قوم پرستی اجتماعی شناخت، قومی خود مختاری، اور ایک مشترکہ مقصد پر مرکوز ہوتی ہے۔ اس مضمون میں پہلے وجودیت کو تفصیل سے جاننےکی کوشش کرتےہیں، اور اس کے بعد قوم پرستی کو زیر بحث لایا جاتے ہیں، تاکہ ان دونوں نظریات کا تقابلی جائزہ لے سکے ۔

وجودیت :

وجودیت (Existentialism) 19ویں اور 20ویں صدی کا ایک فلسفیانہ مکتبۂ فکر ہے جس کا مقصد فرد کی زندگی، آزادی، اور انتخاب کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔ وجودیت کے مطابق انسان کی زندگی کا کوئی پہلے سے طے شدہ مقصد یا معنی نہیں ہوتا۔ فرد کو خود اپنی زندگی کے معنی اور مقصد تخلیق کرنے پڑتے ہیں۔

بنیادی اصول:

انسانی آزادی اور انتخاب:
وجودیت کے مطابق انسان مکمل طور پر آزاد ہے اور اپنے فیصلے خود کرتا ہے۔ یہ فیصلے ہی اس کی زندگی کے معنی بناتے ہیں، اور اس کا کردار اس کے اعمال کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے۔ ژاں پال سارتر (Jean-Paul Sartre) نے اپنے مشہور کام Being and Nothingness میں لکھا: "انسان کو آزادی کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے، کیونکہ کوئی دوسرا اس کے فیصلے نہیں کر سکتا”۔
زندگی کی بے مقصدیت:

وجودیت اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ دنیا بے مقصد ہے، اور انسان کو اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اس کی زندگی کا کوئی پہلے سے طے شدہ مقصد نہیں ہے۔ البرٹ کامیو (Albert Camus) نے اپنے مشہور کام The Myth of Sisyphus میں اس مسئلے پر بات کی اور کہا کہ انسان کو زندگی کی بے مقصدیت کو قبول کر کے اپنے لیے خود مقصد بنانا ہوتا ہے۔

وجود اور ذات

وجودیت کے فلسفیوں کا ماننا ہے کہ "وجود” ذات پر مقدم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان پہلے موجود ہوتا ہے، اور اس کے بعد اپنے اعمال اور تجربات کی بنیاد پر اپنی ذات کو تخلیق کرتا ہے۔

مثال: ژاں پال سارتر اور البرٹ کامیو

سارتر کے مطابق، انسان کی زندگی میں کوئی الٰہی یا بیرونی طاقت نہیں ہے جو اس کے اعمال کا تعین کرے۔ سارتر نے لکھا: "انسان کو آزاد ہونا ہے، اور اسے خود اپنی زندگی کے معنی بنانا ہیں۔” اسی طرح، کامیو نے اپنی کتاب The Stranger میں اس موضوع پر بات کی کہ انسان کو اپنی زندگی کی بے مقصدیت کا سامنا کرنا ہوتا ہے اور اسے اپنے اعمال کے ذریعے اپنے لیے مقصد تخلیق کرنا ہوتا ہے۔

قوم پرستی: اجتماعی شناخت اور آزادی

قوم پرستی (Nationalism) ایک ایسا سیاسی اور سماجی نظریہ ہے جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ ایک قوم کو اپنی خودمختاری، ثقافت، زبان، اور تاریخ کی بنیاد پر منظم ہونا چاہیے۔ قوم پرستی میں فرد کی شناخت اس کی قومی شناخت کے ساتھ جڑی ہوتی ہے، اور اس کا مقصد قومی خودمختاری اور آزادی کا حصول ہوتا ہے۔

بنیادی اصول:

. اجتماعی شناخت
قوم پرستی میں فرد کی انفرادیت کو اس کی قومی شناخت کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ قوم پرستی فرد کو قوم کی تاریخ، ثقافت، زبان، اور جغرافیہ کے ساتھ جوڑتی ہے، اور اس کی شناخت کا بڑا حصہ قومی سطح پر متعین ہوتا ہے۔

قومی خود مختاری:

قوم پرستی کی تحریکیں عام طور پر قومی آزادی اور خود مختاری کے حق میں ہوتی ہیں۔ یہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ایک قوم کو بیرونی تسلط یا نوآبادیاتی حکمرانی سے آزاد ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی شناخت اور حقوق کا تحفظ کر سکے۔

. اجتماعی مقصد:
قوم پرستی فرد کو ایک بڑے اجتماعی مقصد کے ساتھ جوڑتی ہے، جہاں قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی جاتی ہے۔ قوم پرستی میں فرد کی آزادی اور خوشحالی قومی آزادی اور خودمختاری سے مشروط ہوتی ہے۔

مثال: الجزائر کی آزادی کی تحریک

الجزائر کی آزادی کی تحریک ایک نمایاں مثال ہے جہاں قوم پرستی نے قومی خود مختاری اور شناخت کے تحفظ کے لیے کام کیا۔ فرانسیسی نوآبادیاتی تسلط کے تحت الجزائر کی قومی شناخت اور ثقافت کو دبایا جا رہا تھا۔ نیشنل لبریشن فرنٹ (FLN) نے قوم پرستی کو اپنایا اور عوام کو فرانسیسی تسلط کے خلاف متحرک کیا۔ یہ تحریک اس بات کا ثبوت ہے کہ قومی خود مختاری
اور شناخت کی حفاظت کے بغیر فرد کی ذاتی آزادی ممکن نہیں۔

وجودیت اور قوم پرستی دو مختلف نظریات ہیں جو انسانی شناخت اور آزادی کے حوالے سے مختلف نقطہ نظر پیش کرتے ہیں:
. فرد بمقابلہ قوم:
وجودیت فرد کی ذاتی آزادی اور خودمختاری پر زور دیتا ہے، جبکہ قوم پرستی فرد کو قومی شناخت اور اجتماعی مقصد کے ساتھ جوڑتی ہے۔ وجودیت کے مطابق، فرد کو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے چاہئیں اور وہ کسی قومی یا اجتماعی شناخت کا پابند نہیں ہے، جبکہ قوم پرستی میں فرد کی آزادی اور خوشحالی قومی آزادی سے مشروط ہوتی ہے۔

بے مقصدیت بمقابلہ مقصد
وجودیت کے مطابق دنیا میں کوئی مقصد یا معنی نہیں ہے، اور فرد کو خود اپنے لیے معنی تخلیق کرنا ہوتا ہے۔ قوم پرستی میں فرد کی زندگی کا مقصد قومی خود مختاری، ثقافت، اور تاریخ کا تحفظ ہوتا ہے۔
. آزادی کی تعریف
وجودیت میں آزادی کا مطلب فرد کی مکمل خود مختاری اور ذاتی فیصلے ہیں، جبکہ قوم پرستی میں آزادی کا مطلب قومی سطح پر خود مختاری اور بیرونی تسلط سے نجات ہے۔ قوم پرستی کے نظریے میں فرد کی ذاتی آزادی تبھی ممکن ہوتی ہے جب قوم آزاد
ہو۔
ہم اپنی بحث کی آخر میں یہ دعوایٰ کرسکتے ہیں کہ اگرچہ وجودیت فرد کی ذاتی آزادی اور خودمختاری پر زور دیتا ہے، لیکن جب فرد ایک ایسی قوم کا حصہ ہو جسے بیرونی تسلط یا نوآبادیاتی حکمرانی کا سامنا ہو، تو فرد کی ذاتی آزادی قومی آزادی سے منسلک ہو جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں قوم پرستی کا نظریہ وجودیت کے مقابلے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے، کیونکہ قوم کی اجتماعی آزادی فرد کی ذاتی آزادی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔

قوم پرستی فرد کو اس کی قومی، لسانی، اور ثقافتی جڑوں سے جوڑتی ہے اور اسے ایک بڑے اجتماعی مقصد کا حصہ بناتی ہے۔ نوآبادیاتی یا استحصالی نظاموں میں، فرد کی ذاتی آزادی اور خوشحالی قومی آزادی کے بغیر ممکن نہیں ہوتی، اور اس لیے قوم پرستی وجودیت کے فلسفے کے مقابلے میں زیادہ عملی اور مؤثر نظریہ ہے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

امریکہ سمندری طوفان ھلاکتوں کی تعداد 223 تک جا پہنچی ،سینکڑوں سینکڑوں لاپتہ

ہفتہ اکتوبر 5 , 2024
امریکا کی 6 ریاستوں میں طوفان اور سیلاب سے ہلاک افراد کی تعداد 223 تک جا پہنچی، سینکڑوں افراد لاپتا ہوگئے۔ سمندری طوفان کے باعث امریکی ریاست شمالی کیرولائنا میں سب سے زیادہ تباہی آئی، صرف اسی ریاست میں اموات کی تعداد 106 ہوچکی ہے، بنکوم میں 72 اموات جبکہ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ