بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ حکومتِ سندھ علمی اداروں کو مسمار کر کے مجموعی طور پر بلوچ قوم کو تاریکی میں دھکیلنے کی گھناؤنی حرکت کر رہی ہے جو کہ قابل مذمت اور مزاحمت کا تقاضا کرتی ہے
انھوں نے کہاہے کہ ریاستِ پاکستان نے تاریخی طور پر نام نہاد ترقی کے نام پر بلوچ قوم کو مسلسل دیوار سے لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے جس کے شواہد گوادر کے ماہیگیروں کے چہروں پہ بے بسی کی صورت میں ثبت ہیں، ابھی سندھ حکومت "ملیر ایکسپریس وے” کے نام پر بلوچی زبان و ادب کے مرکز و بلوچوں کی قومی میراث "سید ہاشمی ریفرنس لائبریری” ملیر کی عمارت کو نقصان دینے کےلیے کوشاں ہے جو کہ کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔
انہوں نے مزید کہا ہےکہ بلوچ علاقوں میں حکمران طبقے تعلیمی، علمی و ادبی مراکز کی تعمیر تو کجا اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کردہ "سید ہاشمی ریفرنس لائبریری ملیر” کو بھی مسمار کرنا چاہتے ہیں جس سے پاکستانی حکمران طبقوں کی غیرمہذب ترجیحات عیاں ہوتی ہیں۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مرکزی کمیٹی نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہےکہ "اس طرح کا عمل بلوچ ادب و ثقافت پر حملے کے مترادف ہے، انہوں نے مزید کہا کہ، ثقافت قوموں کی اجتماعی زندگی اور شناخت کا اظہار ہے۔ ثقافتی مراکز کو درگور کرنا بلوچ کی اجتماعی زندگی اور شناخت سے انکار ریاستی نفرت کا کُھلا ثبوت ہے۔
ترجمان نے بیان کے آخر میں کہا ہےکہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ایک کیڈر بیسڈ علمی درسگاہ ہونے کے ناطے ہر اُس حربے کی پُرزور مذمت کرتی ہے، جو بلوچ شناخت و ادب پر حملہ آور ہو اور علم و ادب کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنے۔