بی این ایم: ایک جہدِ مسلسل

بی این ایم جہد مسلسل کے 38 سال

قاضی داد محمد ریحان

(بی این ایم کے 38ویں یومِ تاسیس کے موقع پر خصوصی تحریر)

چوبیس دسمبر 1987 بلوچ قومی تاریخ کا ایک فیصلہ کن اور تاریخ ساز دن تھا، جب بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے سابق کیڈرز نے بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کی بنیاد رکھی۔ آج، 38 برس بعد، بی این ایم نہ صرف بی ایس او کے حقیقی نظریے کی وارث ہے بلکہ بلوچ قوم کی آزادی کی جدوجہد میں صفِ اوّل کا کردار ادا کر رہی ہے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ نے تحریک کے ہر نشیب و فراز میں تاریخ کے درست سمت کا انتخاب کرتے ہوئے بلوچ قومی تحریک کو زندہ رکھا۔ سن 2003 میں، شہید فدا احمد بلوچ کی شہادت کے بعد، جب بی این ایم کی اس وقت کی قیادت نے تحریک کے بنیادی اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے قوم دوست سیاست کو دفن کرنے کی کوشش کی، تو شہید واجہ غلام محمد بلوچ نے قیادت کے ان فیصلوں کے خلاف بغاوت کر کے ’ فکرِ فدا‘ کو زندہ رکھا۔

بدھ، 9 اکتوبر 2003 کو شہید واجہ غلام محمد بلوچ نے بی این ایم کو تحلیل کرنے کے فیصلے کے خلاف ایک تاریخی پریس کانفرنس کی اور تنظیم کو اس کے نظریاتی اساس سمیت برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔ شہید واجہ غلام محمد اور ان کے ساتھیوں کا مؤقف نہایت واضح تھا:

’’ جب 24 دسمبر 1987 کو بی ایس او سے فارغ سیاسی کارکنوں نے بی این ایم (جسے 1989 میں بلوچستان نیشنل موومنٹ کا نام دیا گیا) قائم کی تو اس کا مقصد بی ایس او کی طویل جدوجہد کا تسلسل بننا، بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں سیاسی خلا کو پر کرنا، بلوچستان کو پاکستانی جبری قبضے اور بلوچ قوم کو پنجابی بالادستی سے نجات دلانا تھا۔ فدا احمد بلوچ کی قیادت میں ایک غیر مصالحت پسند سیاسی حکمتِ عملی ترتیب دی گئی، مگر ان کی شہادت کے بعد قیادت نے اس نظریے سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی پارلیمانی سیاست کو اختیار کیا، جسے بلوچ قوم نے پہلے ہی مسترد کر چکی تھی۔ ‘‘

بی این ایم کی قوم دوست قیادت کو اس مؤقف کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ صدر واجہ غلام محمد بلوچ کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا، مگر رہائی کے بعد بھی وہ اپنے نظریے پر ثابت قدم رہے۔ بالآخر 9 اپریل 2009 کو، لالا منیر اور شیر محمد بلوچ کے ساتھ، آپ کو شہید کر دیا گیا۔

واجہ غلام محمد کی شہادت کے بعد تحریکِ آزادی کے دوران شخصی اختلافات، طاقت کی کشمکش اور پسند و ناپسند کی بنیاد پر قیادت سازی کی کوششوں نے بی این ایم کو بھی متاثر کیا، تاہم تنظیم کے نظریاتی کیڈرز نے ان بحرانوں کو صبر، استقامت اور فکری بلوغت کے ساتھ عبور کیا۔ اس دوران غیر جمہوری اور تںظیم گریز قوتوں نے اپنی ناکامیوں کا ملبہ بی این ایم پر ڈالنے کی کوشش کی، میڈیا ٹرائل کے ذریعے حقائق کو مسخ کیا گیا، مگر بی این ایم نے سوشل میڈیا پر غیر ضروری محاذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے اپنی منزل پر توجہ مرکوز رکھی۔

انتہائی دشوار حالات کے باوجود، بی این ایم نے 2010، 2014 اور اپریل 2022 میں جمہوری روایات کو برقرار رکھتے ہوئے کامیاب سیشن منعقد کیے۔ خصوصاً اپریل 2022 کا سیشن ایک سنگِ میل ثابت ہوا، جس میں کیڈرز نے ثابت کیا کہ بی این ایم بدلتے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آئینی ترامیم کے ذریعے تنظیمی ڈھانچے کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا اور ایک نئے سفر کا آغاز ہوا۔

اس سیشن کے بعد بی این ایم ایک نئی توانائی کے ساتھ ابھری۔ تنظیم کے نظریات مزید واضح اور نکھر کر سامنے آئے۔ ’ انسانی بنیادوں پر بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد‘ آج بھی بی این ایم کا بنیادی نظریہ ہے۔ ادارہ جاتی سیاست کے اصولوں کے تحت قلیل مدت میں تنظیم کے اندر انسانی حقوق، کیپسٹی بلڈنگ، آئی ٹی، انفارمیشن اور کلچرل ڈیپارٹمنٹس کو فعال بنایا گیا، جنھوں نے محدود وسائل کے باوجود نئی راہیں متعین کیں۔

آنے والا سال بی این ایم کے ایک اور سیشن کا سال ہوگا، جہاں نئی منزلیں ہمارا انتظار کر رہی ہیں۔ شہید واجہ غلام محمد بلوچ کا یہ قول آج بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے:’ بی این ایم رہنماؤں کی نہیں، کارکنان کی جماعت ہے۔‘

یہی وہ فکر تھی جس کے تحت انھوں نے مراعات کی سیاست کے بجائے قومی مفاد کا راستہ چنا، سختیاں برداشت کیں اور جان کا نذرانہ پیش کیا۔

آج کارکنان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بدلتے حالات کا گہرا مطالعہ کریں، اپنی صفوں میں اتحاد اور ہم آہنگی برقرار رکھیں اور پارٹی کو مؤثر، نتیجہ خیز اور انقلابی سمت میں آگے بڑھائیں۔ بی این ایم ایک انقلابی سیاسی جماعت ہے؛ اس کا کردار کسی این جی او جیسا نہیں بلکہ ایک نظریاتی اور سیاسی تحریک کا ہونا چاہیے۔

ڈائسپورا میں بی این ایم کی موجودگی نے تنظیم کو عالمی سطح پر فعال بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ کی قیادت میں پارٹی نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں اور آج بلوچ قوم کی آواز دنیا بھر میں گونج رہی ہے۔ ان کامیابیوں کا تسلسل، ادارہ جاتی استحکام، احتساب اور خود تنقیدی ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے—وہی اصول جن کی تلقین شہید واجہ غلام محمد ہر نشست میں کیا کرتے تھے۔بی این ایم بلوچستان میں آزادی کا نعرہ بلند کرنے والی پہلی سیاسی جماعت ہے۔ ہم صرف شہید فدا احمد بلوچ اور شہید غلام محمد بلوچ کے فکری وارث نہیں بلکہ عبدالعزیز کرد، یوسف عزیز مگسی اور بی ایس او کی طویل جدوجہد کے بھی امین ہیں۔ ہمیں اپنی فکری پختگی اور عملی جدوجہد کے ذریعے خود کو اس عظیم وراثت کا اہل ثابت کرنا ہوگا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

تہران: سابق افغان پولیس کمانڈر اکرام الدین سری فائرنگ   سے ہلاک

جمعرات دسمبر 25 , 2025
تہران میں فائرنگ کے ایک واقعے میں سابق افغان حکومت کے دور میں صوبہ بغلان اور تخار میں تعینات رہنے والے پولیس کمانڈر اکرام الدین سری ہلاک ہو گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اکرام الدین سری کو مقامی وقت کے مطابق شام تقریباً 7:30 بجے اُس وقت گولیاں ماری گئیں […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ