
اسلام آباد: پاکستان اور ناروے کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے جب ناروے کے سفیر کی سپریم کورٹ میں ایمان زینب مزاری کیس کی سماعت کے دوران موجودگی پر پاکستان نے سخت احتجاج ریکارڈ کرایا۔ وزارتِ خارجہ نے ناروے کے سفیر کو طلب کر کے باضابطہ احتجاجی مراسلہ پیش کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ کسی غیر ملکی سفیر کی عدالتی کارروائی میں موجودگی پاکستان کے داخلی معاملات اور عدالتی خودمختاری میں غیر ضروری مداخلت کے مترادف ہے، جو سفارتی پروٹوکول اور ویانا کنونشن کے منافی ہے۔
مزاری کیس میں ملزمہ اور ان کے شوہر کے خلاف سوشل میڈیا مواد سے متعلق مقدمات زیر سماعت ہیں، اور ناروے کے سفیر بطور مبصر عدالت میں موجود تھے۔ پاکستانی حکام کے مطابق یہ اقدام معمول کی سفارتی سرگرمی نہیں، بلکہ عدالتی حساسیت کے پیش نظر غیر مناسب سمجھا گیا۔
ناروے نے اپنے سفیر کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانونی اور بین الاقوامی سفارتی روایات کے مطابق تھا اور عدالتی فیصلوں پر اثر ڈالنے کا مقصد نہیں تھا۔ ناروے کی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ سفیروں کا عدالتی کارروائی کا مشاہدہ کرنا ایک تسلیم شدہ سفارتی عمل ہے، خاص طور پر ایسے مقدمات میں جو انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھے جا رہے ہوں۔ ناروے نے اس بات پر بھی زور دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچانے کا خواہاں نہیں اور معاملے کو سفارتی سطح پر حل کرنے کے لیے تیار ہے۔
سفارتی مبصرین کے مطابق یہ واقعہ پاکستان اور ناروے کے تعلقات میں ایک نازک مرحلے کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں پاکستان داخلی خودمختاری اور عدالتی دائرہ اختیار پر زور دے رہا ہے جبکہ ناروے انسانی حقوق اور سفارتی روایات کا حوالہ دے رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ معاملے کو محتاط سفارت کاری کے ذریعے نہ سنبھالا گیا تو یہ کشیدگی دوطرفہ تعلقات پر مزید اثر ڈال سکتی ہے۔
