یورپی پارلیمنٹ میں کانفرنس: پاکستان کی جی ایس پی پلس حیثیت کا جائزہ، بی این ایم وفد کی شرکت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے شواہد پیش

یورپی پارلیمنٹ میں ’’ جی ایس پی پلس: یورپی یونین کی خاموش مفاہمت ‘‘ کے عنوان سے ایک کانفرنس اور فلم اسکریننگ منعقد ہوئی۔ اس اہم بین الاقوامی کانفرنس میں بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) نے بھی شرکت کی اور بلوچستان میں پاکستان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے شواہد پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب پاکستان کی جی ایس پی پلس حیثیت کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔

بی این ایم نے اس عالمی فورم پر کہا کہ انسانی حقوق کی ناقابلِ تصور خلاف ورزیوں کے باوجود پاکستان کی جی ایس پی پلس حیثیت یورپی اقدار کے منافی ہے۔

ای یو ٹوڈے کے زیرِ اہتمام ہونے والی اس کانفرنس میں یہ پرکھا گیا کہ آیا پاکستان کو جی ایس پی پلس کے تحت یورپی منڈی تک ترجیحی تجارتی رسائی برقرار رکھنی چاہیے یا نہیں۔

اس موقع پر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ جبری گمشدگیاں بلوچستان کی زندگی کا سب سے تاریک پہلو ہیں۔ صرف 2025 کے آخری تین مہینوں میں جبری گمشدگی کے 234 نئے کیس درج ہوئے۔ خواتین—جیسے نسرینہ بلوچ اور ماہ جبین بلوچ—جو اس سال کے اوائل میں اغوا کی گئیں، اب تک جبری لاپتہ ہیں۔ گزشتہ تین ماہ میں سی ٹی ڈی اور ریاستی پشت پناہی والے ڈیتھ اسکواڈز نے 22 ماورائے عدالت قتل کیے۔ ان میں سے کئی افراد پہلے سے جبری طور پر لاپتہ تھے۔ ان کی لاشیں—مسخ شدہ، تشدد کے نشانات سے بھری—ان کے خاندانوں کے حوالے کی گئیں۔ یہ اکا دکا واقعات نہیں بلکہ ریاستی طرزِ عمل کا مستقل پیٹرن ہے۔

انھوں نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں ہزاروں بلوچ شہری جبری لاپتہ کیے گئے اور ہزاروں کو حراست میں قتل کیا گیا۔ مختلف علاقوں میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں۔ دشت، کوئٹہ کے قریب، ایک قبرستان ہے جسے ’’نامعلوم افراد کا قبرستان‘‘ کہا جاتا ہے، جہاں سیکڑوں نامعلوم لاشیں دفن ہیں—بیٹے، بھائی، باپ—جو جبری لاپتہ ہوئے اور پھر بے نام لاشوں کی صورت واپس آئے۔

انھوں نے یورپی پارلیمنٹ کے نمائندگان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا شکریہ کہ آپ نے آج ہمارے دور کی سب سے زیادہ خاموش اور ظلم سہنے والی قوم—بہادر بلوچ قوم—کو آواز دی۔ آپ کی موجودگی علامتی نہیں؛ یہ دنیا کے لیے یہ پیغام ہے کہ تکلیف کو سرحدوں کے پیچھے نہیں چھپایا جا سکتا اور انسانی وقار ہمیشہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔

بی این ایم کے چیئرمین نے کہا میں آج آپ کے سامنے صرف بلوچ نیشنل موومنٹ کے نمائندے کے طور پر نہیں، بلکہ ایک ایسے عینی گواہ کے طور پر کھڑا ہوں جو دہائیوں سے جاری ایک انسانی المیے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے—ایک ایسا المیہ جو مسلسل بڑھتی ہوئی شدت کے ساتھ جاری ہے۔

انھوں نے کہا وسائل سے مالامال مگر حقوق سے محروم اس خطے میں بلوچ عوام جنوبی ایشیا کے سب سے دیرینہ اور کم تسلیم شدہ انسانی حقوق کے بحران سے گزر رہے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں پاکستان کے عسکری اداروں نے جبر کی مہم کو مزید شدت دی ہے۔ پُرامن سیاسی رہنماؤں، طلبہ، انسانی حقوق کے محافظوں اور سیاسی کارکنوں کو ایک ایسے غضب ناک طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کا مقصد پوری نسل کو خاموش کرنا ہے۔

’’ اس نسل کے روشن ستاروں میں سے ایک چیئرمین زبیر بلوچ تھے—ایک نوجوان رہنما جن کا واحد ہتھیار ان کی آواز تھی۔ وہ مکالمے پر یقین رکھتے تھے، جمہوری حقوق کے قائل تھے، اور پرامن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے۔ ان کی زندگی گولیوں سے ختم کر دی گئی—یہ پیغام دیتے ہوئے کہ ابھرتی ہوئی بلوچ قیادت کو پنپنے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے۔ ان کی موت صرف ایک سانحہ نہیں؛ یہ ایک پالیسی کی عکاسی ہے۔‘‘

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مارچ 2025 کے بعد سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنوں کو بارہا ہراساں، گرفتار اور جھوٹے الزامات میں قید کیا گیا۔ ان کے پُرامن مارچوں اور عوامی اجتماعات پر تشدد کیا گیا۔ انھوں نے کہا یہ محض سیاسی بیانیہ نہیں؛ ان مظالم کو اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپس، ایمنسٹی انٹرنیشنل، فرنٹ لائن ڈیفینڈرز اور عالمی میڈیا نے دستاویزی شکل میں محفوظ کیا ہے۔ دنیا لاعلمی کا دعویٰ نہیں کر سکتی؛ ثبوت بے شمار ہیں۔

انھوں نے کہا کہ حالیہ مہینوں میں صورتحال مزید خطرناک ہو گئی ہے۔ پاکستان نے بلوچستان میں مسلح ڈرون تعینات کر دیے ہیں جو شہری علاقوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ زہری میں ڈرون حملوں نے چار بچوں سمیت متعدد شہریوں کی جان لی۔ جو گاؤں کبھی چیک پوسٹوں سے خوفزدہ تھے، اب آسمان سے خوف کھاتے ہیں۔ یہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی نہیں؛ یہ نہتے شہریوں کے خلاف جدید ہتھیاروں کا استعمال ہے—یہ جنگی جرم ہے۔

چیئرمین بی این ایم نے کہا کہ جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ پاکستان نے بلوچستان میں سیاسی گنجائش کو بھی مکمل طور پر سکیڑ دیا ہے۔ پُرامن احتجاج جرم بنا دیے گئے ہیں، جماعتوں پر پابندیاں لگ رہی ہیں، اور رہنماؤں کو جلاوطن یا قتل کیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ وہ مائیں بھی، جو اپنے لاپتہ بچوں کی تصویریں اٹھائے خاموش کھڑی ہوتی ہیں، ’’سکیورٹی تھریٹ‘‘ قرار پاتی ہیں۔

انھوں نے نشاندہی کی کہ سیکولر اور جمہوری بلوچ تحریک کو کمزور کرنے کے لیے ریاست مذہبی انتہا پسند گروہوں کی سرپرستی کر رہی ہے—یہ دانستہ حکمتِ عملی سماج کو توڑنے، ترقی پسند آوازوں کو دبانے اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے اپنائی گئی ہے—جس کے اثرات بلوچستان سے کہیں زیادہ وسیع ہیں۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ بلوچستان وسائل کی دولت سے مالامال ہے—تانبہ، سونا، گیس، معدنیات اور ساحلی ذخائر—لیکن وہاں کے لوگ سب سے محروم ہیں۔ ہر سال اربوں ڈالر ان کمپنیوں کے ذریعے نکالے جاتے ہیں جو جی ایس پی پلس اسکیم سے فائدہ اٹھاتی ہیں، جبکہ مقامی آبادی کو پینے کا صاف پانی، معیاری تعلیم اور بنیادی سہولیات تک میسر نہیں۔ یہ ترقی نہیں؛ یہ فوجی قبضے کے تحت نوآبادیاتی استحصال کی نئی شکل ہے۔

انھوں نے کہا کہ جب بلوچستان سب سے زیادہ زخم خوردہ ہے، دیگر محکوم اقوام—پشتون، سندھی، کشمیری، مسیحی، احمدی، ہندو اور گلگت بلتستان کے باشندے—بھی جبری گمشدگیوں، من مانی گرفتاریوں اور سیاسی جبر کا شکار ہیں۔ یہ علاقائی نہیں بلکہ ساختی مسئلہ ہے۔

انھوں نے زور دیا کہ اس صورتحال میں یورپی یونین کا کردار انتہائی اہم ہے۔ پاکستان اب بھی یورپی یونین کی جی ایس پلس اسکیم سے فائدہ اٹھا رہا ہے—ایک ایسا میکانزم جس کا مقصد انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق اور بہتر حکمرانی کے عالمی اصولوں کی پاسداری کو فروغ دینا ہے۔ لیکن پاکستان ان تمام شرائط کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔ کوئی بھی ریاست جو جبری گمشدگیوں، شہریوں پر ڈرون حملوں، تشدد، اجتماعی قبروں اور سیاسی جبر میں ملوث ہو، اسے جی ایس پی پلس کا ’’اہل‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ جی ایس پی پلس کی ساکھ اسی وقت قائم رہ سکتی ہے جب یہ اپنے ہی اصولوں پر عملدرآمد کی صلاحیت ثابت کرے۔ خارجہ پالیسی اُس وقت سب سے زیادہ کمزور پڑتی ہے جب اصول توڑنے والوں کو مسلسل مراعات دی جائیں۔ میں اس پارلیمنٹ سے درخواست کرتا ہوں کہ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپس، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور فرنٹ لائن ڈیفینڈرز کی رپورٹس کو مکمل اہمیت دی جائے۔ میں آپ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ پاکستان کی جی ایس پی پلس حیثیت کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے—ان بے شمار شواہد کی روشنی میں۔

’’ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ آپ شفافیت، جوابدہی، اور انسانی حقوق میں قابلِ پیمائش بہتری کی شرط عائد کریں۔ اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور اجتماعی قبروں کی آزاد بین الاقوامی تحقیقات کی حمایت کریں۔‘‘

انھوں نے کہا کہ دہائیوں کے ظلم کے باوجود بلوچ قوم آج بھی پُرامن، فکری اور سیاسی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہماری جدوجہد کسی قوم کے خلاف نہیں، بلکہ ظلم، استحصال اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف ہے۔ آپ کی موجودگی ہمیں امید دیتی ہے—یہ امید کہ دنیا نے منہ نہیں موڑا، امید کہ انصاف اب بھی ممکن ہے، امید کہ ہمارے لوگوں کے زخم مزید نظرانداز نہیں کیے جائیں گے۔

اپنے خطاب کے آخر میں انھوں نے کہا: "بلوچ قوم وہی چاہتی ہے جو ہر قوم چاہتی ہے: آزادی، وقار اور حقِ خودارادیت۔ آج میں یورپ سے درخواست کرتا ہوں کہ ہمارے ساتھ کھڑا ہو—انسانی حقوق کے ساتھ کھڑا ہو—آزادی کے ساتھ کھڑا ہو۔”

یہ ایونٹ ای یو ٹوڈے کی جانب سے منعقد کیا گیا اور ای سی آر گروپ کی ایم ای پی جارجیانا تیودوریسکو کی میزبانی میں ہوا۔ اس میں یورپی ارکانِ پارلیمنٹ، انسانی حقوق کے رہنما، صحافی اور سماجی کارکن شریک ہوئے۔ گفتگو کا محور پاکستان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ اور جی ایس پی پلس سے منسلک شرائط کے حوالے سے یورپی کمیشن کے طرزِ عمل پر رہا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

سگار' میگزین کا 26 واں شمارہ شائع

جمعہ دسمبر 5 , 2025
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد (بی ایس او – آزاد) کے معروف میگزین ‘سگار’ کا 26 واں ایڈیشن اب دستیاب ہے۔ یہ تازہ شمارہ 5 دسمبر 2025 کو شائع کیا گیا ہے۔ نیچے دیے گئے لنک پر کلک کر کے ‘سگار’ کے 26 ویں شمارے کا مطالعہ کریں۔ مدیر

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ