قربانی کا فلسفہ اور بی ایل ایف کی نئی جنگی حکمتِ عملی

تحریر: دودا بلوچ
زرمبش مضمون

دنیا کی تاریخ میں جنگِ آزادی ایک ایسا فلسفیانہ باب ہے جو خون، قربانی اور جدوجہد سے لکھا گیا ہے۔ لفظ "جنگ” محض تین حروف پر مشتمل نہیں، بلکہ اپنے اندر پوری تاریخ، صدیوں کی کہانیاں، قربانیاں، امیدیں اور وہ خواب سموئے ہوئے ہے جو جنگ کو مزید خوفناک بھی بناتے ہیں اور معنی خیز بھی۔

کیونکہ جنگ صرف دو لشکروں کے ٹکراؤ کا نام نہیں، بلکہ یہ تباہی اور بقا کی دو متضاد قوتوں کا اظہار ہے۔

ایک عام انسان کی نظر میں جنگ کے دو رخ ہیں:
پہلا رخ تباہی کا ہے۔ وہ جنگ کو بربادی، ملبے کے ڈھیروں، یتیم بچوں، بیوہ عورتوں اور بے سہارا بوڑھوں کی صورت میں دیکھتا ہے۔ جنگ دلوں میں خوف بٹھا دیتی ہے، نسلوں کی بنیادیں ہلا دیتی ہے، اور امن و محبت کے ماحول کو نفرت اور بے یقینی میں بدل دیتی ہے۔ اسی لیے ہر معصوم دل چاہتا ہے کہ جنگ نہ ہو صرف امن ہو، محبت ہو، زندگی ہو۔

لیکن جنگ کا دوسرا رخ اُن لوگوں کے سامنے کھلتا ہے جو خود میدانِ جنگ میں کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ جنگ کو مجبوری نہیں بلکہ ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی سرزمین، اپنے لوگوں اور آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کی خاطر لڑتے ہیں۔ ان کے نزدیک جنگ ایک مقدس قربانی ہے اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے۔ بلوچ قوم اسی دوسرے فلسفے پر عمل پیرا ہے۔

جنگ کا فلسفہ دراصل اسی حقیقت پر مبنی ہے کہ دنیا میں طاقت ہی طاقت کو روک سکتی ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے اسی طرح کبھی کبھی بربادی ہی نئی صبح کا آغاز بن جاتی ہے۔ آج بلوچ سرمچار بھی اسی امید کے ساتھ لڑ رہے ہیں کہ ایک دن نئی صبح کا سورج طلوع ہوگا۔

بی ایل ایف کی پہلی فدائی بٹالین: ’’سوب‘‘
30 نومبر 2025 کی رات 8 بجے بلوچستان کے بہادر سپوتوں اور بی ایل ایف کی ’’سوب‘‘ بٹالین نے چاغی میں بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر کاری ضرب لگائی۔ اس حملے نے نہ صرف قابض قوتوں کی دیواریں لرزا دیں بلکہ اُن سرمایہ کاروں کے خواب بھی چکناچور کر دیے جو دنیا کے دولت مند ترین علاقوں میں شمار ہونے والے اس خطے چاغی میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے تھے۔ اب وہ یقیناً سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ کیا بلوچ قوم کی مرضی کے خلاف یہاں سرمایہ کاری ممکن ہے؟

نوکنڈی سے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی کہ ایف سی کے بریگیڈ ہیڈکوارٹر پر حملہ ہوا ہے جہاں استحصالی سرمایہ کاروں کے کوارٹرز بھی قائم ہیں۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق حملہ آور سخت سیکیورٹی کے باوجود مرکزی کمپاؤنڈ تک پہنچ گئے۔ یہ حملہ اس قدر غیر متوقع تھا کہ بہت سے لوگ اسے بی ایل اے مجید بریگیڈ سے جوڑ رہے تھے۔

تاہم ایک گھنٹے بعد صورتحال واضح ہوئی جب بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے بیان جاری کیا:

’’سوب کے سرمچاروں نے نوکنڈی میں ریکوڈک اور سیندک منصوبوں سے وابستہ غیر ملکی عملے اور انجینیئرز کے لیے قائم مرکزی کمپاؤنڈ پر شدید حملہ کیا ہے۔‘‘

یہ خبر دشمن کے لیے ایک نہ بھرنے والا زخم ثابت ہوئی، کیونکہ پچھلے دو ماہ سے بلوچستان میں انٹرنیٹ بند اور سیکیورٹی ہائی الرٹ تھی۔ اس کے باوجود بی ایل ایف نے ایسی جگہ وار کیا جہاں دشمن نے کبھی گمان بھی نہیں کیا تھا۔

نوکنڈی کا علاقہ نہایت حساس ہے:
ایک طرف ریکوڈک اور سیندک جیسے بڑے منصوبے، دوسری طرف فوجی اعتبار سے اہم ترین مقامات۔
ایسے علاقے میں حملہ بی ایل ایف کی منظم حکمتِ عملی، بھرپور منصوبہ بندی اور وسیع تر آپریشنل صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔

سوشل میڈیا پر پرویز مشرف کا ایک مشہور جملہ گردش کرتا رہا کہ:
’’میں بلوچوں کو ایسی جگہ ماروں گا جہاں وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔‘‘
لیکن مشرف چلا گیا؛ بلوچ سرمچاروں نے خود ایسی جگہ وار کیا جہاں پاکستان نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔

یہ حملہ ثابت کرتا ہے کہ نوکنڈی کا واقعہ محض ایک عام حملہ نہیں تھا بلکہ بی ایل ایف کی نئی پالیسی اور بڑھتی ہوئی عسکری قابلیت کا اظہار ہے۔ نوکنڈی کمپاؤنڈ کو عام طور پر "غیر مرئی” مقام سمجھا جاتا تھا۔ مگر بی ایل ایف نے یہ تاثر توڑ دیا۔

بی ایل ایف کی نئی فدائی بٹالین ’’سوب‘‘
نوکنڈی حملے کے بعد بی ایل ایف نے اپنی پہلی فدائی بٹالین "سوب” (SOB — Saddo Operational Battalion) کے قیام کا اعلان کیا، جس کا نام معروف گوریلا کمانڈر شہید سدو مری کے نام پر رکھا گیا۔

اس سے واضح ہے کہ بی ایل ایف اپنی پالیسی کو مزید منظم اور مؤثر بنا رہا ہے
تاکہ:

پاکستان کو نفسیاتی شکست دی جا سکے،

بلوچستان میں بڑھتے عالمی مفادات کو نشانہ بنایا جا سکے،

اور عالمی طاقتوں پر دباؤ بڑھایا جائے کہ وہ بلوچ قوم کی مرضی کے خلاف سرمایہ کاری ترک کریں۔

جنگوں میں نفسیاتی اثر اور طاقت کا تاثر:

گوریلا جنگ دراصل ایک نفسیاتی جنگ ہوتی ہے۔ اس کا مقصد دشمن کو جسمانی نقصان سے زیادہ ذہنی دباؤ میں رکھنا ہوتا ہے۔ جب دشمن اس مقام پر حملہ دیکھتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو تو اس کی مورال ٹوٹ جاتی ہے۔ پھر وہ ہمیشہ خوف کے سائے میں رہتا ہے، مورچوں سے باہر نکلنے سے گھبراتا ہے، ہر وقت حملے کا سوچ کر بے سکون رہتا ہے۔

بلوچ مسلح تنظیمیں پہلے ہی ریاست کی مورال کو گرا چکی ہیں—اب صرف اس کے مضبوط کمپیون میں گھس کر اسے مزید بے بس کرنا باقی ہے۔

بی ایل ایف اور نفسیاتی جنگ:

بی ایل ایف ہمیشہ سے صرف زمینی کارروائیوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ نفسیاتی، جغرافیائی اور سیاسی سطح پر بھی مؤثر حملے کرتی رہی ہے۔
اس کی مثال 2004 کا گوادر حملہ ہے، جہاں چینی انجینیئرز نشانہ بنے۔ اس حملے نے کئی سال تک گوادر پورٹ کے کام کو روک دیا اور چین سمیت پاکستان کو سخت دباؤ میں رکھا۔ یہ بی ایل ایف کی بڑی کامیابی تھی۔

اسی طرح نوکنڈی کا حملہ بھی زمینی نتائج سے زیادہ نفسیاتی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا پیغام صاف ہے:
سخت ترین سیکیورٹی حصار بھی بلوچ سرمچاروں کے لیے ناقابلِ تسخیر نہیں۔

نوکنڈی کے انتخاب نے یہ باور کروا دیا ہے کہ ریکوڈک، سیندک اور دیگر منصوبوں سے وابستہ غیر ملکی عملہ یہ حقیقت سمجھ لے کہ بلوچستان میں بلوچوں کی مرضی کے بغیر کوئی ترقیاتی منصوبہ نہیں چل سکتا۔ اگر کوئی غیر ملکی کمپنی پاکستان کے ساتھ بلوچ قوم کے استحصال میں شریک ہوگی تو مستقبل میں ایسے حملوں کا خطرہ بڑھتا جائے گا۔

دنیا کی ہر سرمایہ دار کمپنی کو سمجھ لینا چاہیے کہ بلوچستان میں ایک قوم رہتی ہے اور اس کی مرضی کے خلاف کوئی منصوبہ محفوظ نہیں ہو سکتا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

کراچی: انسداد دہشت گردی عدالت نے ماہ رنگ بلوچ کو دہشت گردی اور بغاوت کے مقدمے سے بری کر دیا

بدھ دسمبر 3 , 2025
کراچی: کراچی کی انسدادِ دہشت گردی (اے ٹی سی) عدالت نے بدھ کے روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو گزشتہ سال اکتوبر میں اُن کے خلاف درج بغاوت اور عوامی فساد پھیلانے کے مقدمے سے بری کر دیا۔ ماہ رنگ بلوچ کے خلاف 11 اکتوبر […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ