
زرمبش تجزیہ
بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کی جانب سے اپنی پہلی خصوصی جنگی یونٹ کو ’’سدو آپریشنل بٹالین‘‘ کا نام دینا محض ایک علامتی فیصلہ نہیں، بلکہ بلوچ مزاحمتی تاریخ میں ایک ایسے کردار کی یاد کو امر کرنے کی کوشش ہے جسے اپنی سیاسی و عسکری وابستگی کی مسلسل قیمت چکانا پڑی۔ اس یونٹ کا نام سعادت مری، المعروف سدو مری، سے منسوب ہے ایک ایسا نام جو بلوچ قومی بیانیے میں ثابت قدمی، مزاحمت اور نظریاتی استقامت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
1927 میں سبی کے علاقے ہرنائی میں پیدا ہونے والے سدو مری نوجوانی ہی میں بلوچ قوم پرست سیاست کے دھارے میں شامل ہوگئے۔ 1964 کی مزاحمتی تحریک اور 1972 کے مسلح تنازع نے نہ صرف ان کی سیاسی سوچ کو پختہ کیا بلکہ انہیں بلوچ مزاحمتی عمل کی صفِ اول میں لاکھڑا کیا۔ 1977 کی سیاسی ہلچل کے بعد جب بلوچ قوم پرست حلقوں پر ریاستی دباؤ بڑھا تو بہت سے سیاسی کارکنوں کی طرح سدو مری بھی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ افغانستان منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے جلاوطنی کے ایّام گزارے۔
1992 میں بلوچستان واپسی کے بعد انہوں نے ہزار گنجی کے پہاڑی علاقے میں رہائش اختیار کی، لیکن سیاسی مزاحمت سے دور نہ رہے۔ خاص طور پر 2004 میں جب مکران کے خطے میں مسلح جدوجہد منظم ہورہی تھی، تو عمر رسیدگی کے باوجود سدو مری نے نوجوانوں کے ساتھ بی ایل ایف کے پلیٹ فارم پر سرگرم کردار ادا کیا۔ یہی پہلو انہیں بلوچ قوم پرست حلقوں میں منفرد بناتا ہے کہ بڑھتی ہوئی عمر کے باوجود وہ محاذ کے پیچھے کھڑے رہنے پر آمادہ نہیں ہوئے بلکہ خود مورچہ سنبھالے رکھا۔
3 دسمبر 2007 کا حملہ ان کی جدوجہد کا آخری باب ثابت ہوا۔ بی ایل ایف کے بیانات کے مطابق، کیچ میں فرنٹیئر کور کی چوکی پر کارروائی کے دوران انہوں نے اپنے جنگی ٹیم کی واپسی کو محفوظ بنانے کے لیے خود کو قربان کردیا اور فائرنگ کے تبادلے میں شہادت کے مرتبے پر فائر ہوگئے۔ یہ واقعہ اس وقت مزید علامتی رنگ اختیار کر گیا جب معلوم ہوا کہ صرف چند ماہ قبل، 14 اگست 2007 کو، ان کا بیٹا گلزار مری بھی شہید ہوچکا تھا۔ اس طرح باپ اور بیٹے دونوں اپنی جانیں اسی جدوجہد کے نام کر گئے جس پر انہوں نے اپنی پوری زندگی صرف کی۔
سعادت عرف سدو مری کی زندگی اور موت بلوچ سیاسی تاریخ میں نظریاتی وابستگی کے ایک ایسے نمونے کے طور پر دیکھی جاتی ہے جس میں نہ جلاوطنی ان کے موقف کو کمزور کرسکی، نہ بڑھاپا، اور نہ ہی خاندانی قربانیوں نے ان کی مزاحمتی سوچ کو بدلنے پر مجبور کیا۔ سدو مری آج بھی بلوچ قوم پرست بیانیے میں ایک حوالہ اور ایک تمثیل کے طور پر زندہ ہیں ایسا حوالہ جو جنگی حکمتِ عملی سے زیادہ نظریاتی استقامت اور سیاسی وفاداری کا استعارہ بن چکا ہے۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے 2004 میں اپنی پہلی بڑی جنگی کارروائی اس وقت کی جب چینی انجینئروں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جس نے بلوچستان میں نئی عسکری مزاحمت کے دور کا آغاز کیا اور بی ایل ایف کو بطور ایک منظم مزاحمتی تنظیم علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر متعارف کروایا۔ اس حملے نے نہ صرف توجہ حاصل کی بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ مسلح جدوجہد اب روایتی دائرے سے نکل کر معاشی اور تزویراتی مفادات کے مراکز کو بھی ہدف بنانے کی پالیسی اپنا چکی ہے۔
نوکنڈی کی موجودہ کارروائی اس بات کی علامت ہے کہ 2004 میں چینی انجینیئروں پر حملے سے شروع ہونے والا بیانیہ آج بھی تبدیل نہیں ہوا بلکہ اس نے اپنے اہداف اور طریقۂ کار کو بدلتے ہوئے ایک طویل جنگی اور نظریاتی محاذ کی صورت اختیار کرلی ہے۔
