
افغانستان کے شمالی علاقوں میں اتوار کو آنے والے ایک شدید زلزلے نے بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی، جس کے نتیجے میں کم از کم 20 افراد جاں بحق اور 320 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔
امریکی جیولوجیکل سروے (USGS) کے مطابق زلزلے کی شدت 6.3 درجے ریکارڈ کی گئی، جس کا مرکز صوبہ بلخ کے شہر خُلم کے قریب اور گہرائی تقریباً 28 کلومیٹر تھی۔ زلزلے کے جھٹکے سمنگان، قندوز، تخار اور مزارِ شریف سمیت کئی شمالی علاقوں میں محسوس کیے گئے۔
مقامی حکام کا کہنا ہے کہ زلزلے کے نتیجے میں درجنوں مکانات منہدم ہوگئے جبکہ کئی عمارتوں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ مزار شریف کی تاریخی “بلو مسجد” (روضۂ حضرت علیؓ) کو بھی جزوی نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔
ریسکیو اداروں کے مطابق متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور امدادی کارروائیاں جاری ہیں، تاہم پہاڑی اور دشوار گزار راستوں کی وجہ سے امداد پہنچانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
افغانستان کی وزارتِ قدرتی آفات کے ترجمان نے بتایا کہ ابتدائی تخمینے کے مطابق ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ کئی دور دراز دیہاتوں سے تاحال مکمل معلومات موصول نہیں ہوئیں۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق، زلزلے کے نتیجے میں سینکڑوں گھر تباہ اور درجنوں خاندان بے گھر ہوگئے ہیں۔ متاثرین میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
ریڈ کریسنٹ سوسائٹی اور اقوامِ متحدہ کے انسانی امدادی ادارے (OCHA) نے فوری امدادی کارروائیاں شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق، ابتدائی ترجیح زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنا، پناہ گاہوں کا قیام اور متاثرہ خاندانوں کو خوراک و صاف پانی فراہم کرنا ہے۔
زلزلے کے بعد مزید جھٹکوں (aftershocks) کا سلسلہ بھی جاری ہے، جس کی وجہ سے لوگ خوف و ہراس کے عالم میں کھلے میدانوں میں رات گزارنے پر مجبور ہیں۔
ماہرینِ ارضیات کا کہنا ہے کہ افغانستان خطہٴ ہندوکش زلزلہ خیز پٹی میں واقع ہے، جہاں زمین کی ساختی تبدیلیوں کے باعث ہر سال درجنوں درمیانے اور شدید زلزلے آتے ہیں۔
