
تحریر بختاور فیض
زرمبش مضمون
کچھ لوگ زندگی میں آ کر سب کچھ بدل دیتے ہیں ان کی باتوں سے ان کے انداز سے ان کی مسکراہٹ سے وہ ہمارے دل کے اتنے قریب ہو جاتے ہیں کہ ان کے بغیر زندگی کا تصور ادھورا لگنے لگتا ہے وہ زندگی میں آ کر ہمیں زندگی جینے کا انداز سکھاتے ہیں کہ زندگی ایک دوست کے بغیر کتنی مشکل ہوتی ہے اور دوست کے ساتھ جینے کا الگ ہی لطف ہے
میں ایک ایسے دوست کی بات کر رہی ہوں جو بھائی سے کم نہیں تھا اس نے دوست اور بھائی دونوں کا فرض نبھایا بھائی کی جگہ وہ بھائی تھا دوست کی جگہ دوست تھی میں اسے صرف دوست کہہ سکتی ہوں مگر دل میں وہ ایک بھائی کی جگہ لے چکا تھا
اس کی ہنسی میں زندگی کی رونق تھی باتوں میں سکون اور دل میں عجب سی روشنی وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ غم وقت کے ساتھ ہلکا ہو جاتا ہے بس صبر تھوڑا سا بھاری ہوتا ہے میں اس کے حوصلے دیکھ کر اکثر یہی سوچتی تھی کہ اتنا حوصلہ اس کے پاس کہاں سے آتا ہے وہ ہر شخص کے دکھ تکلیف میں ان کے ساتھ ہوتا اور دوسروں کے لیے مسکراہٹ بن جاتا تھا
زندگی کے سفر میں ہم نے کئی ایسے لمحے ساتھ دیکھے ہیں کبھی ہنسی خوشی کبھی خاموشی اور کبھی ایسے لمحات کہ صرف دل میں یہی خیال آتا کہ وقت کے ساتھ فاصلے بڑھ گئے مگر رشتہ نہیں بدلا وہ دوست اب بھی دل کی دھڑکنوں کے قریب ہے
ایک دن خبر ملی کہ اقبال نے ہمیں چھوڑ کر اس دنیا سے کوچ کر لیا ہے جب یہ خبر سنی تو ایسا محسوس ہوا جیسے پاؤں تلے زمین کھسک گئی ہو ہر طرف غم کی لہر دوڑ گئی دل میں ایک عجیب سا درد اٹھا کہ ایک ایسے انمول دوست کی جدائی نے مجھے اندر سے توڑ کر رکھ دیا ایک چراغ جیسا دوست جو ہمیشہ کے لیے بجھ گیا اور اس کے ساتھ گزارے گئے ہر لمحے کو یادوں میں قید کر کے رکھا ہے
جس دن میرے بھائی جیسے دوست اقبال ہم سے بچھڑ گیا اس دن سے یہ احساس ہوا کہ جدائی صرف فاصلہ نہیں ہوتی یہ وہ خاموشی ہے جو روح میں اتر جاتی ہے اقبال اب جسمانی طور پر موجود نہیں مگر اس کی موجودگی ہر سانس کے ساتھ ہے
جب بھی اس کی یادیں آتی ہیں تو یادوں کے سفر میں کھو جاتی ہوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی خوشبو میں وہ سما گیا ہے تنہائی میں اس کی آواز کانوں میں گونجتی رہتی ہے اور میرے ہر قدم میں وہ ساتھ چل رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ ابھی میرے سامنے چل کر آ رہا ہے
اقبال ایسا دوست تھا کہ اب اس کی جدائی کے درد میں ہر روز مرتا ہوں جی ہاں وہ واقعی ایسا تھا پہلے دوست بن گیا پھر بھائی اور اب وہ میری زندگی کی سب سے حسین یاد بن کر رہ گیا ہے۔
