
حب کے رہائشی بھائی جنید حمید اور یاسر حمید کی جبری گمشدگی کو ایک سال مکمل ہونے پر مختلف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر آگاہی مہم چلائی گئی۔
جنید اور یاسر حمید گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں حب چوکی اور قلات سے جبراً لاپتہ ہوئے تھے۔ ان کے اہلخانہ نے متعدد پریس کانفرنسز، مرکزی شاہراہوں پر دھرنے اور حب، کوئٹہ و اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے کیے۔
احتجاجی دھرنوں کے دوران حکام نے اہلخانہ کو نوجوانوں کی بازیابی کے حوالے سے دو مرتبہ یقین دہانی کرائی اور معاہدوں پر دستخط کیے، لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود دونوں نوجوان تاحال بازیاب نہیں ہو سکے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما سمی دین بلوچ نے کہا کہ جنید حمید کو 8 اکتوبر 2024 اور یاسر حمید کو 11 اکتوبر 2024 کو جبراً لاپتہ کیا گیا۔ ایک ہی گھر سے دو افراد کا لاپتہ ہونا اہلخانہ کے لیے ایک ناقابل برداشت سانحہ بن چکا ہے اور وہ مسلسل اذیت، بے یقینی اور انتظار کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ایڈووکیٹ ایمان مزاری نے کہا کہ ایک بہن نے اپنے جبری لاپتہ بھائیوں کی بازیابی کے لیے 70 دن تک اسلام آباد کی سڑکوں پر بیٹھ کر احتجاج کیا، اور آج بھی یاسمین حمید بلوچ مزاحمت کی زندہ مثال ہیں۔ انہوں نے فوری بازیابی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جبری گمشدگیوں پر خاموشی ظلم کے برابر ہے۔
جنید اور یاسر کی بہن یاسمین حمید نے لکھا کہ 8 اکتوبر کو بھائیوں کے اٹھائے جانے کو ایک سال مکمل ہو گیا، اور ان کے اہلخانہ خاموش نہیں رہیں گے۔
بی وائی سی کے اسیر رہنما گلزادی بلوچ کی بہن شمیم بلوچ نے کہا کہ اہلخانہ ہر رات دروازے پر دستک کے انتظار میں گزارتے ہیں، یہ امید کی علامت ہے کہ ان کے بیٹے زندہ ہیں۔ انہوں نے جبری گمشدگی کو ایک ایسا زخم قرار دیا جو کبھی نہیں بھرتا۔
سائر بلوچ نے زور دیا کہ ہر لاپتہ شخص کے حقوق کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور بین الاقوامی برادری کو فوری تحقیقات، شفافیت اور تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات دو دہائیوں سے جاری ہیں اور رواں سال جبری گمشدگیوں اور جعلی مقابلوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں تشویش کا اظہار کر رہی ہیں، جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور دیگر تنظیمیں مسلسل آواز بلند کرتی رہی ہیں۔
حالیہ دنوں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے 70 دن تک اسلام آباد میں دھرنا دیا، لیکن حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
