
تحریر: دودا بلوچ
زرمبش مضمون
بلوچستان کی تاریخ قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہر دور میں ایسے فرزند پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی جان کو اپنی قوم اور سرزمین کے لیے وقف کیا۔ انہی روشن ستاروں میں ایک نام شہید چیرمین زبیر جان کا ہے جو نوجوانی ہی میں مزاحمت اور قومی شعور کی علامت بن گئے۔ ان کی جدوجہد قربانی اور ان کی شخصیت بلوچ تاریخ میں ہمیشہ انقلاب کی مشعل کے طور پر زندہ رہے گا۔
چیرمین زبیر جان بلوچ قوم کے ایسے نوجوان رہنما تھے جنہوں نے اپنی سوچ سیاسی بصیرت اور قربانی کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ سرزمین اور قوم سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ اُن زندگی کہ ساتھ تنقید اور اختلاف جڑے رہے۔ کیونکہ چیرمین زبیر جان کا تعلق بی ایس او پجار سے رہا، جسے بعض حلقے ایک متنازعہ تنظیم سمجھتے ہیں کیونکہ اسی تنظیم سے تعلق رکھنے والے کئی لوگ بعد میں پارلیمنٹ کا حصہ بنےاور ریاستی پالیسیوں کا آلہ کار بنے۔ یہی وہ مقام تھا جہاں زبیر جان کو اکثر تنقید کا سامنا رہا۔ لیکن ان کی ذات اور سوچ کسی ایک تنظیم تک محدود نہیں تھی۔ وہ جانتے تھے کہ تحریکیں افراد یا تنظیموں کے نام سے نہیں بلکہ قربانی اور اصولی موقف سے زندہ رہتی ہیں۔
لیکن اج اختلافات یک طرف ہوگئے کیونکہ وہ اس حوادث کے سامنے ڈٹ گئے جس کے پیش رو کے سامنے نواب مھراب اور ساتھی کھڑے رہے زبیر جان سیاسی بصیرت کی نایاب ہیرا تھے اور ان کی یہ خواہش کہ بلوچ قوم انہیں بلوچ سرزمین کی سپاہی کے طور پر یاد کرے یہ ان کی سیاسی شعور کی بلندی تھی وہ جانتے تھے بلوچ سرزمین اپنے پیکرِ ایثار کو کبھی نہیں بھولتا ۔
چیرمین زبیر جان ایک ایسا نوجوان تھا جو غلامی کے احساس کو جانتا تھا اور اپنی قوم کے دکھ کو اپنی ذات کا حصہ سمجھتا تھا۔ اسی محکومی کی احساس نے اسی باقیوں سے الگ کیا کیونکہ وہ سرزمین کی سیاست کے حقیقی کارکن اور رہبر تھے اُس نے بارہا یہ بات کہی کہ سرزمین کا وارث وہی ہے جو اس کے لیے قربان ہونے کو تیار ہو، اور اس بات کو اُس نے اپنی شہادت سے ثابت کر دکھایا کہ وہ نہ صرف ایک اچھا سیاسی کارکن تھا بلکہ وقت آنے پر اس نے خود کو سرزمین کیلئے وقف کرنے سے بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
اکثر ہم اختلافات میں الجھ کر حقیقت کا دوسرا رخ بھول جاتے ہیں۔ اپنے بیانیے اور ذاتی مفادات کے تحت صرف ایک رخ کو بیان کرتے ہیں۔ مگر زبیر جان کی قربانی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ کسی بھی تحریک یا جدوجہد کا اصل مقصد ذاتی مفاد نہیں بلکہ اجتماعی آزادی، قومی وقار اور آئندہ نسلوں کے لیے روشن مستقبل ہوتا ہے۔ تاریخ ہمیشہ اُنہیں یاد رکھتی ہے جو صرف باتوں اور تقریروں سے نہیں بلکہ عمل اور قربانی کے ذریعے اپنی پہچان بناتے ہیں۔ زبیر جان نے اپنی شہادت سے یہ واضح کر دیا کہ قوموں کی تقدیر وقت اور حالات کے مطابق ہم آھنگ فیصلوں سے بدل جاتی ہے وہ بلوچ قومی سیاست کے ایک درخشان ستارے تھے جس نے بلوچ سرزمین کیلئے خود کو ثابت قدمی کے ساتھ وقف کردیا ۔
بارہا وہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ بلوچستان کی زمین ساحل اور و سائل اور اس کی ترقی کے تمام منصوبے بلوچ عوام کی ملکیت اور رضا کے تابع ہونے چاہئیں۔ چاہے سی پیک ہو یا کسی اور عالمی منصوبے کی بات ہو، اگر بلوچ عوام کی مرضی شامل نہ ہو تو وہ منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یہ اصولی موقف آج بھی زندہ ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک رہنمائی اور مشعل راہ کے طور پر موجود رہے گئ جن باتوں کو کل لوگ محض سیاسی تقریروں یا نظریاتی دعووں کے طور پر لیتے تھے، وہ آج زبیر جان کی قربانی کے بعد ایک ناقابلِ تردید حقیقت بن چکی ہیں۔
آپ کا کردار ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ نوجوان کسی بھی تحریک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ اُن کی قربانی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ وقت کے دھارے میں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنے نوجوانوں کے خون سے اپنی تاریخ لکھتی ہیں۔ وہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک سوچ تھا اور یہ سوچ اب لاکھوں دلوں میں سرایت کرچکاہے۔
آج شہید کا ذکر محض ایک شہید کے طور پر نہیں بلکہ ایک علامت کے طور پر کیا جاتا ہے۔ وہ اس تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں جسے کوئی طاقت مٹا نہیں سکتی۔ اُن کی جدوجہد اور قربانی نے اُنہیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں اختلافات تنقید اور زمانے کی سختیاں سب بے معنی ہو جاتی ہیں۔
مگر تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ قربانی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ وہ رہنما جو اقتدار اور مراعات کے لیے تحریک کو بیچ دیتے ہیں ان کے نام وقت کے دھارے میں کھو جاتے ہیں میرا ایمان ہے کہ بلوچستان اپنے بد عہد اور قوم شکن فرزندوں کو کبھی بھی اچھے لفظوں میں یاد نہیں کرگی جیسے کہ رازق بگٹی جام یوسف دودا خان زہری و دیگر ۔
لیکن زبیر جان جیسے قومی شعور کے پیکر فنا کے قیدی نہیں ہوتے وہ وقت کی قید سے آزاد ہو کر ابدیت میں داخل ہو جاتے ہیں اور تاریخ کے اوراق پر ہمیشہ روشنی بن کر جگمگاتے رہتے ہیں آپ اپنی قربانی کے ذریعے یہ ثابت کر گئے کہ وطن اور سرزمین سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ وہ شہداء کی اس سنہری فہرست میں شامل ہو گئے ہیں جن کے نام وقت کی گرد نہیں مٹا سکتی۔
قربانی محض جان دینے کا نام نہیں بلکہ یہ اس عزم اور ایمان کی معراج ہے جس میں ایک فرد اپنی ذات کو پیچھے چھوڑ کر اپنے لوگوں اور سرزمین کے لیے فنا ہو جاتا ہے۔ جیولس فیوچک کی طرح جو اپنے جہدکاروں کو نہ بھولنے کی تلقین کرتا ہے اور چے گویرا کی طرح جو یقین دلاتا ہے کہ ایک انسان کو قتل کیا جا سکتا ہے لیکن نظریے کو نہیں اسی طرح چیئرپرسن زبیر جان نے اپنی جان دے کر یہ ثابت کیا کہ اصل وارث وہی ہیں جو جدوجہد کی قیمت اپنے خون سے چکاتے ہیں۔ ان کی قربانی ایک ایسا چراغ ہے جو آنے والی نسلوں کو روشنی دے گا اور یہ بتائے گا کہ شہادت وقت کی قید نہیں بلکہ نظریے کی ابدیت ہے۔ شہید زبیر جان کی یہ عظیم قربانی تاریخ کے اوراق پر ہمیشہ ایک زندہ حوالہ رہے گی اور جدوجہد کے ہر مسافر کے دل میں ہمت و حوصلے کی نئی توانائی بھرتی رہے گی۔