بلوچ جہد آزادی کی فتح، پاکستان وچین کی سفارتی پسپائی

تحریر۔ رامین بلوچ

بلوچ قومی آزادی کی تحریک محض مسلح جدوجہد تک محدود نہیں رہی، بلکہ عہدِ حاضر میں یہ ایک ہمہ جہت، منظم اور نظریاتی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس کی اساس تاریخی اور سیاسی جواز کے ساتھ ، ایک مضبوط فکری، اخلاقی اور نظریاتی بنیاد پر قائم ہے، جو اسے دنیا کی بڑی اور معتبر قومی آزادی کی تحریکوں کے ہم پلہ بنا دیتی ہے۔بلوچ قوم صدیوں سے اپنی سرزمین، شناخت اور آزادی کے تحفظ کے لیے برسرِ پیکار رہی ہے۔ تاہم سامراجی طاقتوں کی سازشوں اور مفاداتی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں بلوچ وطن کو بزورِ طاقت ایک غیر فطری ریاست پاکستان میں ضم کر دیا گیا۔ یہ اقدام بلوچ قوم کے لیے نوآبادیاتی غلامی کے ایک نئے اور طویل دور کا آغاز ثابت ہوا۔اس جبری انضمام نے بلوچ عوام کے اندر مزاحمت کی ایک ایسی چنگاری کو بھڑکایا، جو ابتدا میں پُرامن اور سیاسی جدوجہد کی صورت میں سامنے آئی۔ مگر قابض ریاست کے مسلسل جبر، تشدد اور وعدہ شکنی کے باعث یہ تحریک بتدریج مسلح مزاحمت میں ڈھل گئی۔ یوں بلوچ قومی آزادی کی تحریک آج محض ایک ردِعمل نہیں، بلکہ ایک واضح نظریہ، منظم سیاسی لائحہ عمل اور اجتماعی شعور پر مبنی جدوجہد بن چکی ہے، جو عالمی سطح پر بھی اپنی شناخت قائم کر رہی ہے۔ ابتدائی ادوار میں یہ تحریک زیادہ تر عسکری دائرے تک محدود رہی، مگر ستر کی دہائی کے بعد اور بالخصوص دو ہزار کے آغاز سے یہ جدوجہد ایک سائنسی اور منظم بنیاد پر استوار ہو کر تنظیمی شکل اختیار کر گئی۔ بلوچ مزاحمتی تنظیموں نے جدید گوریلا جنگی حکمتِ عملی کو اپناتے ہوئے ایک منفرد مقام حاصل کیا اور تحریک کو محض عسکری میدان تک محدود نہ رہنے دیا۔عالمی سیاسی حالات اور خطے کے بدلتے تقاضوں کے پیشِ نظر اس تحریک نے فکری، نظریاتی، سفارتی اور قانونی محاذوں پر بھی اپنی موجودگی کو منوایا۔ آج بلوچ قومی آزادی کی تحریک ایک ایسی ہمہ جہت مزاحمتی قوت کے طور پر سامنے آ چکی ہے جو نہ صرف قابض پاکستانی ریاست کے سامراجی ڈھانچے کو للکار رہی ہے بلکہ خطے میں ایک متبادل سیاسی اور انقلابی تصور بھی پیش کر رہی ہے۔

ہر آزادی کی تحریک کا بنیادی اور پہلا ہتھیار اس کا نظریہ اور فکری بنیاد ہوتی ہے۔ اگر کسی تحریک کے پاس واضح نظریاتی سمت نہ ہو تو وہ محض وقتی ردِ عمل یا انتشار بن کر رہ جاتی ہے۔ بلوچ قومی تحریک نے گزشتہ دو دہائیوں میں اپنی فکری سمت کو نہ صرف واضح کیا بلکہ یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ جدوجہد محض ایک نسلی یا علاقائی تحریک نہیں، بلکہ دنیا بھر کے مقبوضہ اقوام کی عالمی اینٹی کالونیل جدوجہد کا حصہ ہے۔بلوچ دانشوروں، لکھاریوں، سیاسی رہنماؤں اور ادیبوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بلوچ تحریک کی اصل بنیاد آزادی (Right to Self-Determination) کا وہ عالمی اصول ہے جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین میں تسلیم شدہ ہے۔ اسی اصول کو بنیاد بنا کر بلوچ آزادی دوست جماعتوں، دانشوروں اور مصنفین نے سیاسی علمی و فکری محاذ پر بھرپور کام کیا ہے۔انہوں نے تحقیقی کتابوں، سیاسی مقالات اور بین الاقوامی فورمز پر ایسے مدلل دلائل پیش کیے ہیں جنہوں نے دنیا کے سامنے بلوچ جدوجہد کو ایک جائز، قانونی اور اخلاقی تحریک کے طور پر منوایا ہے۔ اس فکری اور سفارتی جدوجہد کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے پاکستانی ریاست کی اُس پروپیگنڈہ مہم کو بری طرح ناکام بنا دیا ہے جس کے تحت بلوچ تحریک کو محض ایک داخلی شورش یا دہشت گردی کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔

آج دنیا کے مختلف سیاسی و علمی اداروں میں بلوچ تحریک پر تحقیقی مقالے لکھے جا رہے ہیں، اور عالمی سطح پر بلوچ جدوجہد کو نوآبادیاتی نظام کے خلاف ایک نمونۂ مزاحمت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بلوچ تحریک کا یہ نظریاتی محاذ اس حقیقت کو اجاگر کر رہا ہے کہ بلوچ مسلح و سیاسی مزاحمت اور جنگ، بلوچستان کی کامل آزادی اور پاکستانی ریاست کے مسلط کردہ استعماری ڈھانچے کے خلاف ایک اصولی، جائز اور قانونی جنگ ہے۔یوں بلوچ قومی تحریک نے اپنے نظریے، فکر اور جدوجہد کے ذریعے یہ ثابت کر دیا ہے کہ قابض ریاست کی گولیاں، جبر اور پروپیگنڈہ کسی تحریک کو ختم نہیں کر سکتے، جب تک وہ تحریک ایک مضبوط فکری بنیاد اور قومی شعور سے لیس ہو۔ بلوچ تحریک کی یہی فکری پختگی اس کی اصل طاقت ہے۔

بلوچ تحریکِ آزادی کی کامیابی کا ایک اہم پہلو اس کا بین الاقوامی محاذ ہے۔ سرد جنگ کے بعد دنیا میں آزادی کی تحریکوں کے لیے سفارتی محاذ پر مضبوط بنیادیں قائم کرنا ناگزیر ہو گیا تھا۔ بلوچ رہنماؤں نے اس حقیقت کو جلد سمجھ لیا اور عالمی اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف ممالک کے ساتھ رابطے بڑھانے پر خصوصی توجہ دی۔
بلوچ تحریک نے اقوامِ متحدہ، یورپی پارلیمنٹ، امریکی کانگریس اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر بلوچ قوم کی مقبوضہ حیثیت کو واضح کیا اور پاکستانی ریاست کی قبضہ، جارحیت، نسل کشی اور ریاستی دہشت گردی کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ اس عمل نے بلوچ تحریک کو عالمی سطح پر وہ شناخت اور حیثیت دلائی جو کسی بھی جائز قومی آزادی کی تحریک کو ملنی چاہیے

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عالمی سیاست میں آزادی کی تحریکوں کی کامیابی محض مسلح قوت کے بل پر ممکن نہیں ہوتی، بلکہ سفارتی، نظریاتی اور فکری محاذوں پر مؤثر موجودگی بھی اس کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اکیسویں صدی کی دنیا میں جنگیں صرف میدانِ جنگ میں نہیں لڑی جاتیں، بلکہ عالمی اداروں، میڈیا، سفارتی محاذوں اور سیاسی بیانیوں کے ذریعے بھی اپنے نتائج مرتب کرتی ہیں۔بلوچ قومی تحریک آزادی اس حقیقت کو بخوبی سمجھتی ہے کہ کسی بھی مقبوضہ قوم کی جدوجہد اُس وقت تک پائیدار کامیابی حاصل نہیں کر سکتی، جب تک وہ اپنی تحریک کو عالمی سطح پر منظم انداز میں پیش نہ کرے اور اس کے لیے نظریاتی و قانونی جواز پیدا نہ کرے۔ یہی ادراک بلوچ قیادت اور دانشوروں کو اس جانب لے گیا کہ وہ اپنی جدوجہد کو بین الاقوامی تناظر میں مؤثر بنائیں۔ سرد جنگ کے بعد دنیا میں پیدا ہونے والی نئی سیاسی و سفارتی صورتحال کو سمجھتے ہوئے انہوں نے اپنی تحریک کے بین الاقوامی پہلو کو ایک مضبوط ستون کے طور پر استوار کیا۔

سرد جنگ کے خاتمے (1991ء) کے بعد دنیا میں طاقت کا توازن یکسر تبدیل ہو گیا۔ اگرچہ روایتی نوآبادیاتی نظام بظاہر ختم ہو گیا، مگر قبضہ گیریت اور استحصالی قوتوں نے نئی شکلوں میں اپنا وجود قائم رکھا۔ اس نئے عالمی منظرنامے میں آزادی کی تحریکوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ وہ اپنی جدوجہد کو عالمی قوانین، انسانی حقوق کے چارٹرز اور سفارتی بیانیوں سے ہم آہنگ کریں، تاکہ قابض ریاستیں انہیں "دہشت گرد” یا "باغی” قرار دے کر عالمی برادری کو گمراہ نہ کر سکیں۔اسی دور میں اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، انٹرنیشنل کرمنل کورٹ اور دیگر عالمی ادارے، جبکہ انسانی حقوق کے پلیٹ فارمز جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ غیر معمولی اثر و رسوخ کے حامل پلیٹ فارمز کے طور پر سامنے آئے۔ اس تناظر میں آزادی کی تحریکوں کے لیے یہ لازمی ہو گیا کہ وہ ان اداروں کو اپنی جدوجہد کی درست تصویر پیش کریں، تاکہ عالمی رائے عامہ کو بیدار کیا جا سکے اور قابض قوتوں کے پروپیگنڈے کا مؤثر توڑ کیا جا سکے۔بلوچ تحریک آزادی نے بھی اس سفارتی اور فکری جہت کو اپنی حکمتِ عملی کا حصہ بنایا، تاکہ اپنی جدوجہد کو محض علاقائی مسئلہ نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے عالمی سیاسی منظرنامے کا حصہ بنایا جا سکے۔ یہ حکمتِ عملی نہ صرف تحریک کو عالمی سطح پر اخلاقی و قانونی جواز فراہم کرتی ہے بلکہ قابض ریاست کو سفارتی دباؤ میں بھی لاتی ہے۔

بلوچ قومی آزادی کی تحریک محض ایک داخلی مسئلہ نہیں بلکہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف ایک بھرپور اینٹی کالونیل مزاحمت ہے۔ اس تحریک کو درست طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے تاریخی، سیاسی، معاشی اور جغرافیائی تناظر میں گہرائی سے دیکھا جائے۔پاکستانی ریاست نے بلوچستان کو نہ صرف اپنی جغرافیائی اور اسٹریٹجک اہمیت کے سبب زیرِ تسلط رکھا ہوا ہے بلکہ اس خطے کے بے پناہ قدرتی وسائل کو اپنے معاشی مفادات کے لیے مسلسل استحصال کا ذریعہ بنایا ہے۔ بلوچستان کی گیس، معدنیات، ساحلی پٹی اور بحری راستے پاکستان کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، مگر بلوچ عوام ان وسائل کے ثمرات سے محروم ہیں۔ اس استحصال کو مزید پیچیدہ اور خطرناک شکل اُس وقت ملی جب پاکستان نے چین جیسے ایک ابھرتے ہوئے سامراجی طاقتور ملک کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا۔ خاص طور پر گوادر پورٹ اور چین-پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) جیسے منصوبے نہ صرف بلوچ وسائل پر قبضے کو مستحکم کرتے ہیں بلکہ اس خطے کو عالمی طاقتوں کے اسٹریٹجک کھیل کا میدان بھی بنا دیتے ہیں۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو انیسویں صدی میں برطانوی سامراج نے اپنی اسٹریٹجک ضروریات کے تحت بلوچ وطن کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا اور براہِ راست و بالواسطہ حکمرانی قائم کی۔ 1947ء میں برطانوی سامراج کے خاتمے کے بعد بلوچستان ایک آزاد اور خودمختار سیاسی حیثیت رکھتا تھا، مگر مارچ 1948ء میں پاکستان نے فوجی طاقت استعمال کرتے ہوئے بلوچ ریاست کو بزورِ طاقت اپنے ساتھ ضم کر لیا۔ اس طرح ایک پرانی سامراجی قوت کے جانے کے بعد اس کی جگہ ایک نئی نوآبادیاتی ریاست نے لے لی، جس نے برطانوی پالیسیوں کو نئے نام اور شکل کے ساتھ جاری رکھا۔آج بلوچ قومی تحریک کا مؤقف یہ ہے کہ پاکستان کی موجودگی اور اس کی جبر پر مبنی حکمرانی دراصل اسی نوآبادیاتی نظام کا تسلسل ہے، جو بلوچ قوم کو اس کے حقِ آزادی اور سیاسی خودمختاری سے محروم رکھتی ہے۔ اس تناظر میں بلوچ آزادی کی جدوجہد کو محض ایک "علیحدگی پسند تحریک” کے طور پر دیکھنا حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ بلکہ یہ جدوجہد دنیا کی اُن تمام اینٹی کالونیل تحریکوں کا حصہ ہے، جنہوں نے سامراجی قبضے اور استحصالی نظام کے خلاف عالمی سطح پر مزاحمت کی اور اپنی آزادی کو عالمی اصولوں اور قوانین کے مطابق منوایا۔یوں بلوچ قومی تحریک نہ صرف ایک خطے یا قوم کا مسئلہ ہے بلکہ یہ ایک ایسی مزاحمت ہے جس کی گونج عالمی سیاسی منظرنامے پر بھی سنائی دیتی ہے، اور جسے عالمی اینٹی کالونیل تحریکات کے تسلسل میں ہی سمجھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔

چین اور پاکستان کے گٹھ جوڑ کا سب سے نمایاں مظہر چین-پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) ہے۔ یہ منصوبہ بظاہر خطے میں معاشی ترقی اور خوشحالی کا خواب دکھاتا ہے، مگر حقیقت میں یہ بلوچ وسائل اور جغرافیائی محلِ وقوع کے استحصال پر مبنی ایک نیا سامراجی ماڈل ہے۔ گوادر پورٹ کو چین کے لیے نہ صرف ایک معاشی مرکز بلکہ ایک اہم اسٹریٹجک بیس کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی قابض پاکستان کے استعماری ڈھانچے کو مزید مضبوط کر رہی ہے اور خطے کو عالمی طاقتوں کے ٹکراؤ کا میدان بنا رہی ہے۔ اس صورتحال میں عالمی رائے عامہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور جمہوری ممالک کی حمایت بلوچ قومی تحریک کے لیے ناگزیر ہو گئی ہے۔

پاکستان اور چین کے اس گٹھ جوڑ کو بجا طور پر ایک نیو کالونیل اتحاد قرار دیا جا سکتا ہے، جس میں دونوں فریق بلوچ وسائل اور خطے کی اسٹریٹجک اہمیت پر یکساں قبضے اور شراکت دار ہیں۔ پاکستان نے بلوچستان میں اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ایک سیکیورٹی اسٹیٹ ماڈل نافذ کیا ہے، جس کے تحت فوج، خفیہ ایجنسیاں اور پیراملٹری فورسز پورے نظام کو کنٹرول کرتی ہیں۔ جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، اجتماعی سزائیں اور انسانی حقوق کی دیگر سنگین خلاف ورزیاں ریاستی پالیسی کا بنیادی حصہ بن چکی ہیں۔ ان مظالم نے نہ صرف بلوچستان کے سماجی ڈھانچے کو تباہ کیا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کو ایک استعماری اور جابرانہ ریاست کے طور پر بے نقاب کر دیا ہے۔ چین کی مالی، فوجی اور تکنیکی مدد نے ان جبر کے آلات کو مزید مؤثر، بے رحم اور خطرناک بنا دیا ہے۔

اس پس منظر میں بلوچ رہنماؤں نے یہ ادراک کیا کہ اگر عالمی رائے عامہ کو متحرک نہ کیا گیا، اور دنیا کو بلوچستان میں جاری نسل کشی، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے بارے میں آگاہ نہ کیا گیا، تو پاکستان اپنی ریاستی دہشت اور چین کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعے عالمی برادری کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اسی ادراک کے نتیجے میں بلوچ تحریک نے 2000ء کے بعد اپنے سفارتی محاذ کو منظم شکل دینا شروع کیا۔بلوچ رہنماؤں نے اقوامِ متحدہ کے مختلف فورمز، خصوصاً UNPO (Unrepresented Nations and Peoples Organization) کے ذریعے بلوچ مسئلے کو اجاگر کیا۔ اس پلیٹ فارم نے بلوچستان کو ایک ایسی قوم کے طور پر پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا جو اپنی آزادی اور ریاستی حیثیت کی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ یورپی پارلیمنٹ میں بلوچ رہنماؤں نے بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر بریفنگز دیں۔ ان بریفنگز کے نتیجے میں کئی یورپی اراکینِ پارلیمنٹ نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا اور قراردادوں کے ذریعے پاکستان کے جابرانہ اقدامات پر تنقید کی۔

اسی طرح امریکی کانگریس میں بھی بلوچستان کے مسئلے پر سماعتیں منعقد ہوئیں، جن میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور قدرتی وسائل کی لوٹ مار کو اجاگر کیا گیا۔ اگرچہ امریکہ کی طرف سے عملی اقدامات محدود رہے، تاہم یہ بلوچ تحریک کے لیے ایک بڑی سفارتی کامیابی تھی کہ اس کی جدوجہد کو امریکی قانون ساز ادارے کے ایجنڈے میں جگہ ملی۔یہ تمام اقدامات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ بلوچ تحریک نے اپنی جدوجہد کو عالمی سطح پر قانونی اور اخلاقی جواز فراہم کرنے کے لیے ایک مؤثر اور منظم حکمتِ عملی اپنائی ہے۔ یہ نہ صرف تحریک کی سیاسی بصیرت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس بات کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد ایک عالمی انسانی اور سیاسی مسئلہ بن چکی ہے۔

آج کی دنیا میں انسانی حقوق کا تصور آزادی کی تحریکوں کے لیے ایک نہایت مؤثر اور طاقتور ہتھیار بن چکا ہے۔ بلوچ قومی تحریک نے اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بلوچستان میں جاری ریاستی جبر، نسل کشی اور منظم استحصال کو عالمی انسانی حقوق کے تناظر میں اجاگر کیا۔ جبری گمشدگیوں، اجتماعی قبروں اور ماورائے عدالت قتل کے شواہد کو ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے سامنے پیش کیا گیا، جبکہ بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے ذریعے بلوچ قوم پر ہونے والے مظالم کو عالمی ضمیر کے سامنے لایا گیا۔
بلوچ تحریک نے اپنی جدوجہد کو محض نسلی یا لسانی بنیادوں پر محدود نہیں رکھا بلکہ خود کو ایک عالمی اینٹی کالونیل اور اینٹی امپیریلسٹ تحریک کے طور پر پیش کیا۔ اس نظریاتی حکمتِ عملی نے تحریک کو ایک مضبوط فکری بنیاد فراہم کی، جس سے یہ جدوجہد محض ایک "علیحدگی پسند تحریک” کے پروپیگنڈے سے آزاد ہو کر ایک منظم اور عالمی تناظر رکھنے والی تحریک کے طور پر ابھری۔ اسی مقصد کے تحت بلوچ تحریک نے اپنی جدوجہد کو عالمی فکری و سیاسی حلقوں سے جوڑنے کے لیے مختلف اقدامات کیے۔

عالمی تعلیمی اداروں، تحقیقی مراکز اور تھنک ٹینکس میں بلوچ قومی مسئلے پر سیمینارز، لیکچرز اور کانفرنسز منعقد کروائے گئے، جن کے ذریعے بلوچستان کے مسئلے کو محض ایک علاقائی تنازع کے بجائے ایک بین الاقوامی سیاسی و فکری موضوع کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس عمل نے نہ صرف بلوچ مسئلے کو علمی اور سفارتی حلقوں میں جگہ دلائی بلکہ عالمی رائے عامہ میں بھی اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔سرد جنگ کے بعد کے عالمی منظرنامے میں کسی بھی آزادی کی تحریک کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ عالمی اداروں، انسانی حقوق کے ڈھانچوں اور سفارتی تعلقات کو اپنی جدوجہد کے لیے کس حد تک مؤثر انداز میں استعمال کرتی ہے۔ بلوچ قومی تحریک نے اس سمت میں قابلِ ذکر پیش رفت کی ہے، جس کا اظہار عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی آگاہی اور سفارتی حلقوں میں اس مسئلے پر ہونے والی بحث سے ہوتا ہے۔تاہم، اس سفر کو مزید آگے بڑھانے کے لیے بلوچ تحریک کو ایک زیادہ مربوط حکمتِ عملی، اندرونی فکری وحدت، اور عالمی سطح پر ہم خیال اتحادیوں کی اشد ضرورت ہے۔ بلوچ تحریک کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ عالمی انسانی حقوق کے ڈھانچے کو کس طرح ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر بروئے کار لاتی ہے اور اپنی جدوجہد کو عالمی سیاست کا ایک ناقابلِ نظرانداز مسئلہ بنا دیتی ہے۔

تاہم، پاکستانی ریاست نے اس سفارتی پیش رفت کا مقابلہ کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر ایک منظم اور بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا مہم شروع کی، تاکہ بلوچ تحریک کو کمزور اور بدنام کیا جا سکے۔ پاکستان، اپنے سامراجی اتحادی چین کے ساتھ مل کر، بلوچ تحریک کو "دہشت گردی” سے جوڑنے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے، تاکہ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کیا جا سکے اور بلوچ جدوجہد کو قانونی و اخلاقی جواز سے محروم دکھایا جا سکے۔ چین کے سی پیک (CPEC) جیسے بڑے منصوبے، خاص طور پر گوادر پورٹ، اس اتحاد کی بنیادی وجہ ہیں، کیونکہ چین بلوچ مزاحمت کو براہِ راست ان منصوبوں کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ اسی لیے پاکستان اور چین نے مشترکہ طور پر ایک مکروہ سفارتی حکمتِ عملی تیار کی ہے، جو عالمی اداروں اور میڈیا میں بلوچ تحریک کے خلاف سرگرمی سے کام کر رہی ہے۔

اس کے باوجود، بلوچ قیادت کی حکمتِ عملی، سفارتی سرگرمیوں اور عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے روابط نے اس پروپیگنڈے کے اثرات کو بڑی حد تک کمزور کر دیا ہے۔ آج دنیا کے کئی انسانی حقوق کے ادارے اور بعض جمہوری ممالک بلوچ تحریک کو ایک جائز قومی آزادی کی جدوجہد کے طور پر تسلیم کر رہے ہیں۔ یہ پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ تحریک نے عسکری محاذ کے ساتھ ساتھ سیاسی، قانونی اور انسانی حقوق کے میدانوں میں بھی اپنی مضبوط موجودگی قائم کی ہے۔اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی شق 1(2) اور شق 55 واضح طور پر تمام اقوام کو حقِ خودارادیت اور آزادی فراہم کرتی ہیں۔ بلوچ تحریک نے ان قانونی بنیادوں کو عالمی سطح پر پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ بلوچ عوام کی جدوجہد بین الاقوامی قانون کے عین مطابق ہے، اور اسے کسی بھی صورت میں "دہشت گردی” یا "بغاوت” قرار نہیں دیا جا سکتا۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، اجتماعی قبریں، اور خواتین و بچوں کے خلاف ریاستی تشدد جیسے سنگین جرائم کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا بلوچ تحریک کی ایک اہم اور منظم حکمتِ عملی رہی ہے۔ ان مظالم کو دستاویزی شکل دے کر عالمی اداروں اور میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا، جس سے دنیا بھر میں بلوچستان کے مسئلے کے حوالے سے آگاہی میں اضافہ ہوا۔ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندوں نے متعدد رپورٹس جاری کی ہیں، جن میں بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا۔ ان رپورٹس نے نہ صرف بلوچ تحریک کے مؤقف کو تقویت بخشی بلکہ پاکستان کے ریاستی جرائم کو عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کیا۔

پاکستانی ریاست بلوچ تحریک کو کچلنے کے لیے ایک دوہری حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔ ایک طرف فوجی آپریشنز، بلیک آپس، اور منظم ریاستی تشدد کے ذریعے بلوچستان میں خوف اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے، تاکہ عوامی حمایت کو توڑا جا سکے اور مزاحمتی قوتوں کو کمزور کیا جائے۔ دوسری طرف، عالمی سطح پر ایک منفی بیانیہ تشکیل دے کر بلوچ تحریک کو "غیر ملکی سازش”، بیرونی ایجنڈا، بھارتی پراکسی اور "دہشت گردی” سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس مقصد کے لیے پاکستان، اپنے سامراجی اتحادی چین کے ساتھ مل کر، بڑے پیمانے پر سفارتی اور میڈیا مہم چلاتا ہے تاکہ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کیا جا سکے اور بلوچ جدوجہد کو بدنام کیا جائے۔ یہ بیانیہ خاص طور پر سی پیک (CPEC) جیسے منصوبوں کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے، کیونکہ چین بلوچ مزاحمت کو ان منصوبوں کے لیے براہِ راست خطرہ سمجھتا ہے۔تاہم، طویل المدتی تناظر میں یہ حکمتِ عملی الٹی تحریک کے جواز کو مزید مضبوط کر دیتی ہے۔ عالمی برادری بالآخر مسلسل انسانی حقوق کی پامالی، جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، اور نسل کشی جیسے جرائم کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔ جیسے جیسے یہ حقائق عالمی سطح پر آشکار ہوتے ہیں،بلوچ تحریک کو کو زیادہ اخلاقی اور سیاسی حمایت حاصل ہوتی ہے، جبکہ پاکستان اور چین کے بیانیے کی ساکھ کمزور پڑتی جاتی ہے۔

حالیہ دنوں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1267 کمیٹی کے پلیٹ فارم پر پاکستان اور اس کے قریبی اتحادی سامراج چین نے ایک ناکام مشترکہ سفارتی اقدام کے ذریعے بلوچ آزادی پسند قوتوں کے خلاف ایک نئی کارروائی کی کوشش کی۔ اس اقدام کے تحت پاکستان اور چین نے بلوچ لبریشن آرمی (BLA) اور اس کی فدائی یونٹ مجید بریگیڈ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرانے کے لیے قرارداد پیش کی۔ اس کا بنیادی مقصد عالمی رائے عامہ کو یہ باور کرانا تھا کہ بلوچ قومی مزاحمتی قوتیں بھی القاعدہ، داعش اور دیگر عالمی شدت پسند گروہوں کی طرز پر کام کر رہی ہیں، اور یوں بلوچ تحریک کو ایک جائز قومی آزادی کی جدوجہد کے بجائے عالمی دہشت گردی کے زمرے میں پیش کیا جائے۔تاہم، یہ منصوبہ پاکستان اور چین کی توقعات کے برعکس بری طرح ناکام ہو گیا۔ امریکہ، برطانیہ، اور فرانس جو عالمی سیاست میں کلیدی کردار کے حامل ممالک ہیں نے اس قرارداد کو سختی سے مسترد کر دیا۔
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1267 کمیٹی بنیادی طور پر ان گروہوں اور تنظیموں کو دہشت گرد قرار دینے کے لیے قائم کی گئی تھی جن کا تعلق بین الاقوامی شدت پسند نیٹ ورکس، جیسے القاعدہ یا داعش، سے ہو۔ اس کمیٹی کے طریقۂ کار کے مطابق کسی تنظیم کو اس فہرست میں شامل کرنے کے لیے ٹھوس، ناقابلِ تردید شواہد اور عالمی معیار کے مطابق دستاویزی ثبوت پیش کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس عمل کا مقصد یہ ہے کہ دہشت گردی کے الزامات کو محض سیاسی مفادات یا علاقائی تنازعات کے لیے ہتھیار نہ بنایا جا سکے، بلکہ انہیں عالمی امن و سلامتی کے حقیقی تناظر میں پرکھا جائے۔پاکستان اور اس کے قریبی اتحادی چین نے اس فورم کو استعمال کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ بلوچ لبریشن آرمی (BLA) اور اس کی فدائی یونٹ مجید بریگیڈ نہ صرف شہریوں کو نشانہ بناتی ہیں بلکہ ان کے روابط بعض بین الاقوامی دہشت گرد نیٹ ورکس سے بھی ہیں۔ اس بیانیے کے ذریعے پاکستان اور چین نے عالمی برادری کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ بلوچ قومی مزاحمتی تحریک کسی جائز سیاسی و قومی جدوجہد کا حصہ نہیں بلکہ ایک عالمی خطرہ ہے، جس کے خاتمے کے لیے فوری کارروائی ضروری ہے۔تاہم، امریکہ، برطانیہ، اور فرانس—جو عالمی سیاست اور اقوامِ متحدہ کے فیصلہ سازی کے عمل میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں نے اس قرارداد کو تین بنیادی اور کلیدی بنیادوں پر مسترد کر دیا:

  1. ناکافی اور غیر معتبر شواہد

ان ممالک نے واضح کیا کہ پاکستان اور چین کی جانب سے پیش کیے گئے شواہد بین الاقوامی قانونی معیار پر پورے نہیں اترتے۔ پیش کردہ مواد زیادہ تر یک طرفہ رپورٹس، غیر مصدقہ دعوؤں اور ریاستی پروپیگنڈا پر مبنی تھا، جو کسی آزادی دوست تنظیم کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کے لیے ناکافی اور غیر کار آمدہے ان کا مؤقف تھا کہ کسی بھی قومی مسلح تنظیم۔ کو اس درجے کی فہرست میں شامل کرنا ایک انتہائی سنجیدہ قدم ہے، جس کے لیے ٹھوس شواہد اور غیر جانبدار تحقیقات ناگزیر ہیں۔

  1. سیاسی محرکات اور اسٹریٹجک مفادات

امریکہ، برطانیہ، اور فرانس نے یہ بھی نشاندہی کی کہ اس قرارداد کے پیچھے اصل محرک پاکستان اور چین کے سیاسی، معاشی اور اسٹریٹجک مفادات ہیں، نہ کہ عالمی امن یا دہشت گردی کے خاتمے کی کوئی حقیقی کوشش۔ بلوچستان، بالخصوص چین-پاکستان اکنامک کاریڈور (CPEC) کے تناظر میں، خطے کے لیے ایک اہم جغرافیائی و معاشی مرکز ہے۔ بلوچ تحریک اس منصوبے کو نوآبادیاتی تسلط کے طور پر دیکھتی ہے اور اس کے خلاف مزاحمت کرتی ہے، جس سے پاکستان اور چین کے معاشی عزائم کو براہِ راست چیلنج درپیش ہے۔ لہٰذا اس قرارداد کو دراصل بلوچ تحریک کو کمزور کرنے اور عالمی سطح پر اس کی ساکھ کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

  1. آزادی کی اصولی جدوجہد اور بین الاقوامی قوانین

ان طاقتور ممالک نے زور دیا کہ آزادی کی جائز قومی جدوجہد کو دہشت گردی کے زمرے میں ڈالنا اقوامِ متحدہ کے چارٹر، بالخصوص شق 1(2) اور شق 55، کے خلاف ہے، جو تمام اقوام کو آزادی اور خودارادیت کا حق فراہم کرتی ہیں۔ان کا موقف تھا کہ بلوچ تحریک ایک نسلی یا مذہبی شدت پسند گروہ نہیں بلکہ ایک قومی آزادی کی تحریک ہے، جس کی جدوجہد تاریخی، سیاسی اور اخلاقی بنیادوں پر قائم ہے۔ اس جدوجہد کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنا بین الاقوامی قوانین اور انصاف کے بنیادی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔اس طرح، اس قرارداد کو مسترد کر کے عالمی برادری کے ان اہم ممالک نے یہ واضح پیغام دیا کہ دہشت گردی کے الزامات کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس فیصلے نے نہ صرف پاکستان اور چین کے بیانیے کو شدید دھچکا پہنچایا بلکہ بلوچ تحریک کے فکری، قانونی اور اخلاقی مقدمے کو مزید تقویت بخشی۔یہ سفارتی واقعہ اس حقیقت کا بین الاقوامی اعتراف ہے کہ بلوچ قومی تحریک کوئی غیر قانونی یا غیر اخلاقی سرگرمی نہیں، بلکہ ایک ایسی جدوجہد ہے جو عالمی قوانین، انصاف کے اصولوں، اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے لڑی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان اور چین کے اقدامات خطے میں نوآبادیاتی تسلط اور اسٹریٹجک غلبے کو برقرار رکھنے کی ایک کوشش ہیں، جنہیں مستقبل میں مزید عالمی سطح پر چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

یہ لمحہ محض ایک سفارتی ناکامی نہیں، بلکہ ایک سیاسی اور نظریاتی معرکہ بھی ہے۔ اس سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ بلوچ قومی تحریک کا فکری و نظریاتی مقدمہ بین الاقوامی سطح پر مضبوط اور قابلِ دفاع ہے، جبکہ پاکستان کا بیانیہ کمزور، تضادات سے بھرپور، اور عالمی سیاسی معیارات کے برخلاف ہے۔ پاکستان اور چین کا یہ اقدام دراصل اس تشویش کا مظہر بھی ہے جو ان دونوں ریاستوں کو بلوچستان میں بڑھتی ہوئی قومی مزاحمت، خاص طور پر سی پیک (CPEC) کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے لاحق ہے۔یہ ناکامی قابض پاکستان کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکا ہے اور بلوچ تحریک کے لیے ایک اخلاقی و سفارتی فتح۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ عالمی سیاست میں وہ وقت قریب آ رہا ہے جب بلوچ قومی جدوجہد کو محض ایک داخلی مسئلہ یا شورش کے بجائے ایک جائز آزادی کی تحریک کے طور پر تسلیم کیا جائے گا، اور پاکستان کی استعماری پالیسیوں کو مزید عالمی سطح پر چیلنج کیا جائے گا۔ یہ صورتحال مستقبل میں بلوچ تحریک کے لیے مزید عالمی حمایت حاصل کرنے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔

پاکستان اور چین کا باہمی اتحاد محض عسکری تعاون تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک گہرے سامراجی اور نوآبادیاتی مفادات پر مبنی شراکت داری ہے۔ دونوں ریاستوں کا اصل مقصد بلوچستان اور اس کے جغرافیائی محلِ وقوع پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنا اور بلوچ عوام کی مرضی، منشاء اور آزادی کو نظرانداز کرتے ہوئے ایسے معاشی و اسٹریٹجک منصوبوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے، جو بنیادی طور پر قابض اور سامراجی چین کے مفادات کو تقویت دیتے ہیں۔
اس تناظر میں، پاکستان اور چین کی جانب سے بلوچ قومی تحریک کو "دہشت گردی” کے خانے میں ڈالنے کی کوشش ایک منظم نوآبادیاتی پروپیگنڈہ مہم ہے۔ اس بیانیے کا مقصد عالمی برادری کو گمراہ کرنا، بلوچ تحریک کے جائز قومی مطالبات کو بدنام کرنا، اور آزادی کی جدوجہد کو عالمی سطح پر مشکوک بنانا ہے۔ درحقیقت، یہ ایک نفسیاتی اور سفارتی ہتھیار ہے جس کے ذریعے پاکستان اور چین عالمی رائے عامہ کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں جاری مزاحمت کسی انتہا پسندانہ ایجنڈے کا حصہ ہے، ان کا مقصد بلوچستان کے قدرتی وسائل کے استحصال اور خطے کو ایک اسٹریٹجک نوآبادیاتی مرکز میں تبدیل کرنا ہے۔ بلوچ قومی آزادی کو تسلیم کرنے بجائے انہیں ریاستی جبر، فوجی آپریشنز، جبری گمشدگیوں اور ماورائے انسانی قانوں کے جبری گمشدگی،قتل، جعلی مقابلوں اور نسل کشی کے ذریعے خاموش کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بلوچ تحریک کو دہشت گردی کے دائرے میں پیش کرنے کی یہ کوشش دراصل پاکستان اور چین کے نوآبادیاتی عزائم کو ڈھانپنے اور عالمی سطح پر اپنی معاشی و اسٹریٹجک پالیسیوں کو تحفظ دینے کا ایک ہتھکنڈہ ہے۔ یہ پروپیگنڈہ بلآ خر اپنی منطقی انجام تک پہنچ کر طویل المدتی تناظر میں بلوچ تحریک کے موقف کو مزید قانونی، اخلاقی اور سیاسی طاقت فراہم کرتا ہے، کیونکہ دنیا بالآخر انسانی حقوق کی پامالی، استعماری جبر، اور آزادی کی جدوجہد کے درمیان واضح فرق کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

قابض پاکستان اور اس کا اتحادی چین کا بیانیہ کئی سطحوں پر جھوٹ، کمزوری اور تضاد کا شکار ہے۔ پاکستان خود داعش کے ڈیتھ سکواڈز اور دیگر مذہبی شدت پسند گروہوں کا خالق اور پرورش گاہ ہے، اور بلوچ وطن پر اس کا قبضہ محض جبر اور طاقت کے ذریعے قائم ہے۔ ایسے غیر فطری اور دہشت گردانہ کردار رکھنے والے ملک کی طرف سے بلوچ مزاحمت کو دہشت گردی کے زمرے میں ڈالنے کی کوشش نہ صرف عالمی سطح پر غیر معتبر اور بے بنیاد دکھائی دیتی ہے، بلکہ یہ پاکستان کی اپنی دہشت گردانہ شناخت کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔ اب وہ پروپیگنڈہ، جو ماضی میں بلا خوف و خطر چلایا جاتا تھا، اب مطلق نہیں رہا اور اس کے جھوٹ و منافقت کی حقیقت سب کے سامنے کھل چکی ہے۔

پاکستان اور چین کی حالیہ ناکامی یہ واضح ثبوت فراہم کرتی ہے کہ بلوچ قومی تحریک کو دہشت گرد قرار دینا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ بلوچ جدوجہد ایک منظم، نظریاتی اور سیاسی بنیادوں پر استوار تحریک ہے، جسے عالمی سطح پر دہشت گردی کے زمرے میں رکھنا محال ہے۔ یہ واقعہ بلوچ تحریک کے لیے ایک اہم پیغام بھی رکھتا ہے: عالمی سفارتی محاذ پر اپنی جدوجہد کو مزید فعال بنایا جائے، تاکہ دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ یہ تحریک آزادی کسی غیر منظم شدت پسندی کا شاخسانہ نہیں، بلکہ آزادی کی مکمل، جائز اور اصولی جدوجہد ہے۔بلوچ تحریک آزادی کا مستقبل ان قربانیوں، عزم اور نظریاتی پختگی میں مضمر ہے جو اسے دنیا کی دیگر کامیاب قومی آزادی کی تحریکوں کے صف میں کھڑا کرتی ہیں۔ اس مستردی نے پاکستان کے بیانیے کو بری طرح بے نقاب کر دیا اور واضح کر دیا کہ بلوچ تحریک کو بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد قرار دینے کے لیے عالمی یکجہتی یا تعاون موجود نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچ قومی تحریک ایک عالمی اور اخلاقی جواز کے حامل قومی حق آزادی کی بنیاد پر قائم ہے، اور اس کی جدوجہد کی پختگی صلاحیت ہی اسے بین الاقوامی سطح پر معتبر اور ناقابل تسخیر بناتی ہے۔

بلوچ قومی آزادی کی تحریک کی بنیادی اساس اس کے مضبوط نظریاتی جواز، عوامی حمایت، اور قربانیوں کی پُرخلوص اور سرفروشتاریخ میں مضمر ہے۔ یہ جدوجہد مسلح اور سیاسی جدوجہد کے ساتھ ، ایک سائنٹیفک منظم اور عقلی بنیاد پر قائم تحریک ہے جو بلوچ قومی آزادی کے اصولی موقف پر مبنی ہے۔ بلوچ تحریک آزادی نہ صرف پاکستان کے نوآبادیاتی بیانیے کو رد کرتی ہے بلکہ عالمی برادری کے سامنے یہ واضح پیغام بھی پیش کرتی ہے کہ بلوچ قوم بھی وہی حق مانگ رہی ہے جو آج امریکہ فرانس برطانیہ کو حاصل ہے کیا کو امریکی اپنی آزادی پر سمجھوتہ کرسکتا ہے یا ایک برطانوی یا فرانسیسی اپنی وطن میں کسی غیر ملکی حکمرانی کو برداشت کرسکتی ہے
یہ تحریک اس بات کا ثبوت ہے کہ قومی شعور، تاریخی جدوجہد، اور قربانیوں کی مسلسل روایت کسی بھی سامراجی یا نوآبادیاتی ہتھکنڈے کے سامنے ڈگمگا نہیں سکتی۔ بلوچ قوم ایک واضح جدوجہد اور دوٹوک مطالبہ کے ساتھ ہر ایک محاز پر اپنی پوزیشن پر قائم ہے ہے جو عالمی سطح پر انسانی حقوق، قومی آزادی، اور خودمختاری کے اصولوں کی عکاسی کرتی ہے۔ اس لحاظ سے بلوچ تحریک عالمی سیاسی محاذ پر بھی ایک اہم تاریخی اور اخلاقی مقام رکھتی ہے، اور یہ مستقبل میں عالمی دنیا اور خطہ کے لے آزادی اور انصاف کی کوششوں کے لیے ایک مضبوط رہنما کردار ادا کرتی رہے گی۔اور یہ مستند سچ ہے کہ بلوچ ایک سیکولر قوم ہے اور عالمی امن اور انصاف کے لے بلوچستان کی آزادی ناگزیر اور ضروری ہے

بلوچ قومی آزادی کی تحریک کی بنیادی اساس اس کے مضبوط نظریاتی جواز، عوامی حمایت، اور قربانیوں کی پُرخلوص تاریخ میں مضمر ہے۔ یہ جدوجہد نہ صرف مسلح اور سیاسی محاذ پر جاری ہے بلکہ ایک سائنسی، منظم اور عقلی بنیاد پر بھی استوار ہے، جو بلوچ قومی آزادی کے اصولی موقف کی عکاسی کرتی ہے۔

بلوچ تحریک آزادی نہ صرف پاکستان کے نوآبادیاتی بیانیے کو رد کرتی ہے بلکہ عالمی برادری کے سامنے یہ واضح پیغام بھی پیش کرتی ہے کہ بلوچ قوم وہی حق آزادی مانگ رہی ہے جو امریکہ، فرانس، اور برطانیہ جیسے ممالک کو حاصل ہے۔ کیا ایک امریکی اپنی آزادی پر سمجھوتہ کرسکتا ہے؟ یا ایک برطانوی یا فرانسیسی اپنے وطن میں کسی غیر ملکی حکمرانی کو برداشت کرسکتا ہے؟

یہ تحریک اس بات کا ثبوت ہے کہ قومی شعور، تاریخی جدوجہد، اور قربانیوں کی مسلسل روایت کسی بھی سامراجی یا نوآبادیاتی ہتھکنڈے کے سامنے ڈگمگا نہیں سکتی۔ بلوچ قوم ہر محاذ پر اپنے موقف پر دوٹوک اور واضح پوزیشن کے ساتھ قائم ہے، جو عالمی سطح پر انسانی حقوق، قومی آزادی، اور خودمختاری کے اصولوں کی ترجمانی کرتی ہے۔

اسی تناظر میں بلوچ تحریک عالمی سیاسی محاذ پر ایک اہم تاریخی اور اخلاقی مقام رکھتی ہے، اور مستقبل میں عالمی دنیا اور خطے میں آزادی اور انصاف کی کوششوں کے لیے ایک مضبوط رہنما کردار ادا کرتی رہے گی۔ یہ مستند حقیقت بھی ہے کہ بلوچ قوم ایک سیکولر قوم ہے، اور عالمی امن و انصاف کے لیے بلوچستان کی آزادی ناگزیر اور ضروری ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

گوادر، کراچی اور پنجگور سے ایک شخص جبری لاپتہ دو بازیاب

پیر ستمبر 22 , 2025
تفصیلات کے مطابق 20 ستمبر 2025 کو گوادر کے علاقے بلوچ وارڈ سے ہلال مراد ولد مراد کو پاکستانی فورسز نے حراست میں لے کر جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔ اہلِ خانہ نے نے ان کی جبری گمشدگی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ تاحال ان کے حوالے سے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ