
بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی قیادت کو گرفتار ہوئے پانچ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے۔ بی وائی سی کے مطابق رہنماؤں پر نہ کوئی الزام عائد کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی قسم کے شواہد سامنے لائے گئے ہیں، تاہم انہیں تاحال رہا نہیں کیا گیا۔
اسی صورتحال کے خلاف اسلام آباد میں جاری احتجاج اور دھرنا آج اپنے 57 ویں روز میں داخل ہوگیا ہے۔
اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے قریب جاری اس دھرنے میں شریک خاندانوں اور کارکنان کا کہنا ہے کہ ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر قیدی رہنماؤں کو فی الفور رہا کیا جائے۔ اہل خانہ کا مؤقف ہے کہ رہنما صرف اس لیے پابندِ سلاسل ہیں کیونکہ انہوں نے حق، انصاف اور بلوچ عوام کے بنیادی حقوق کی آواز بلند کی۔
پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے اخونزادہ حسین یوسفزئی نے بھی دھرنے میں شرکت کرتے ہوئے کہا: “57 دن ہوگئے ہیں کہ ہم بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کا مطالبہ بالکل جائز ہے کہ ان کے اسیران اور قیدی، جنہیں ناحق ریاستی قید میں رکھا گیا ہے، رہا کیے جائیں۔ ہم اس موقف کی مکمل تائید کرتے ہیں۔”
مظاہرین نے انسانی حقوق کے اداروں، سول سوسائٹی اور عالمی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس مسئلے پر آواز بلند کریں اور ریاستی جبر کے خلاف کھل کر اپنا کردار ادا کریں۔
احتجاجی مظاہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز انہوں نے پرامن ریلی کی صورت میں پریس کلب کی جانب جانے کی کوشش کی تاکہ جبری گمشدگیوں اور بڑھتے ہوئے ریاستی جبر کو اجاگر کریں، مگر اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ نے انہیں روک دیا۔ مظاہرین کے مطابق یہ عمل بنیادی آئینی اور جمہوری حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
خواتین اور بچوں سمیت خاندانوں کو شدید گرمی میں سڑکوں پر بیٹھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، تاہم مظاہرین پرعزم ہیں کہ یہ مشکلات ان کے حوصلے پست نہیں کر سکتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک انصاف نہ ملے اور رہنماؤں کو رہا نہ کیا جائے۔
