
کراچی میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ 25 ویں روز بھی جاری رہا۔ کراچی پریس کلب کے باہر لگائے گئے احتجاجی کیمپ میں لاپتہ افراد کے اہلخانہ اور بزرگ خواتین شریک ہیں جو اپنے پیاروں کی تصاویر اور پلے کارڈز اٹھائے انصاف کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ جب تک ان کے پیارے بازیاب نہیں ہوتے احتجاج ختم نہیں ہوگا۔
زاہد بلوچ کے والد حمید بلوچ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ان کے بیٹے کو کسی عدالتی حکم یا قانونی کارروائی کے بغیر اٹھایا گیا۔ “اگر ان پر کوئی الزام ہے تو عدالت میں شواہد کے ساتھ پیش کیا جائے، عدالتوں کو نظرانداز کرنا انصاف کا قتل اور آئین کی خلاف ورزی ہے،” انہوں نے افسوس کا اظہار کیا۔
لاپتہ نوجوان سرفراز بلوچ کے اہلخانہ کے مطابق 26 فروری 2025 کو انہیں دن دس بجے کے قریب برانی اسپتال بولٹن مارکیٹ کے قریب جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ اہلخانہ کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر درج کرانے، پریس کانفرنس کرنے اور سوشل میڈیا پر آواز بلند کرنے کے باوجود کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔ سرفراز بلوچ کی والدہ بی بی گلشن بلوچ طبیعت کی ناسازی کے باعث کیمپ میں شریک نہیں ہو سکیں۔ اہلخانہ کے مطابق وہ بیٹے کی گمشدگی کے بعد شدید ذہنی و جسمانی دباؤ میں ہیں اور ان کی حالت بگڑتی جا رہی ہے۔ سرفراز بلوچ گھر کے واحد کفیل تھے، ان کی گمشدگی کے بعد خاندان شدید معاشی اور سماجی مشکلات کا شکار ہے۔
ادھر ماری پور کے علاقے سنگھور پاڑہ سے تعلق رکھنے والے دو سگے بھائی شیراز اور سیلان بلوچ کے لواحقین نے الزام عائد کیا کہ 23 مئی کو مبینہ طور پر سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گھر پر چھاپہ مار کر دونوں کو گرفتار کیا، تاہم اس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں۔ ان کی والدہ اماں سبزی بلوچ نے کہا کہ “میرے دونوں بیٹے بے گناہ ہیں، ان کی گمشدگی نے گھر کو اجاڑ دیا ہے، ہم شدید ذہنی اور مالی اذیت میں ہیں۔”
احتجاجی کیمپ میں شریک مظاہرین نے کہا کہ جبری گمشدگیاں نہ صرف متاثرہ خاندانوں کے لیے المیہ ہیں بلکہ شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق کی بھی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ انہوں نے چیف جسٹس پاکستان، وزیراعظم اور وزیر داخلہ سے مطالبہ کیا کہ اس سنگین مسئلے پر فوری نوٹس لیا جائے اور لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔
