
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی رہنما سمی دین بلوچ اور لاپتہ امیر بخش بلوچ کی بیٹی صدف بلوچ نے پیر کے روز کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ گیارہ سال سے لاپتہ امیر بخش بلوچ کو بازیاب کرایا جائے، یا اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدف بلوچ نے کہا کہ ان کے والد امیر بخش بلوچ کو 4 اگست 2014 کو گوادر کے علاقے امبی بازار کلانچ سے فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کیا۔ "گیارہ سال گزر چکے ہیں، ہمیں آج تک یہ نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں، زندہ بھی ہیں یا نہیں”، صدف بلوچ نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جبری گمشدگی صرف ایک فرد کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک پورے خاندان کے لیے مسلسل اذیت، ذہنی دباؤ، اور سماجی موت کا باعث بنتی ہے۔ "ہم اپنے والد کی بازیابی کے لیے عدالتوں، انسانی حقوق کمیشنز، حکومتی دفاتر اور احتجاجی مظاہروں سمیت ہر پرامن راستہ اپنا چکے ہیں، لیکن ہر بار مایوسی اور خاموشی کے سوا کچھ نہیں ملا۔”
سمی دین بلوچ نے کہا کہ جبری گمشدگیاں بلوچستان کے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔ "ہم صرف انصاف مانگ رہے ہیں۔ اگر امیر بخش بلوچ نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کریں، لیکن بغیر کسی الزام، کسی مقدمے کے، ایک شخص کو 11 سال تک غائب رکھنا کون سا قانون اور کون سا انسانی حق ہے؟”
صدف بلوچ نے مزید کہا کہ ان کی والدہ ایک دہائی سے اس سوال کے ساتھ جی رہی ہیں کہ آیا وہ بیوہ ہیں یا ایک لاپتہ شوہر کی اہلیہ۔ "ہم نہ انہیں مردہ کہہ سکتے ہیں، نہ زندہ جان سکتے ہیں۔ ہماری زندگی ایک مسلسل بے یقینی میں گزر رہی ہے۔ ہم اس عذاب سے کب نکلیں گے؟”
انہوں نے ریاست پاکستان، عدلیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ "ہم نفرت نہیں کرتے، انتقام نہیں چاہتے، ہم صرف اپنے والد کو واپس چاہتے ہیں۔ یہ مطالبہ کسی سیاسی جماعت یا تحریک کا نہیں، بلکہ ایک بیٹی کی وہ فریاد ہے جو 11 سال سے اپنے والد کے انتظار میں ہر دن جیتی اور ہر رات مرتی ہے۔”
پریس کانفرنس کے اختتام پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سمی دین بلوچ نے کہا کہ بلوچ خواتین اب صرف احتجاج کرنے والی نہیں، بلکہ مزاحمت کی قیادت کرنے والی بن چکی ہیں۔ "ہم اس جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، جب تک ہمارے پیاروں کو انصاف نہیں ملتا۔