
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے قائم احتجاجی کیمپ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے 5900 ویں روز جاری ہے۔ ایڈوکیٹ خالدہ بلوچ نے احتجاجی کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی، اور احتجاج میں حصہ لیا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیرمین نصراللہ بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ جس طرح مولانا ہدایت الرحمن کے لانگ مارچ کو پنجاب میں ولکم کیاگیا، مریم نواز صاحبہ نے ان سے مزاکرات کیے اور بعد میں وفاقی حکومت نے بھی انہیں عزت دی اور ان سے مزاکرات کیے،
اگر اسی طرح اسلام آباد میں موجود بلوچ خواتین کو ویلکم کیا جاتا، احتجاج کا حق دیا جاتا اور متحرمہ مریم نواز صاحبہ اور وفاقی حکومت بلوچ خواتین کے سروں پرشفقت رکھتے اور ان سے مزاکرات کرتے، تو بلوچستان کے مائیں اور بیٹیاں اب تک بلوچستان واپس آگئے ہوتے، اور اہل بلوچستان کو مثبت پیغام چلا جاتا لیکن افسوس اسلام آباد بلوچ خواتین کے ساتھ ملکی قوانین تحت رویہ اختیار کرنے کے بجائے ان کو مختلف طریقوں سے حراساں کررہا ہے تاکہ بلوچ خواتین مجبور ہوکر اپنا احتجاج ختم کرے، اور بلوچستان واپس چلے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ جو یقینا ایک غیر جمہوری عمل ہے جسکی وجہ سے اہل بلوچستان کے احساس محرومی میں اضافہ ہونے کے ساتھ اہل بلوچستان کے دلوں نفرت بڑھی گی، جو ملکی سلامتی کے لیے نیک شکون نہیں ہے،
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس لیے حکومت اور ملکی اداروں کے سربراہوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اسلام آباد میں موجود بلوچ خواتین کو احتجاج کا حق دیا جائے، انکے سروں پر دست شفقت رکھا جائے اور ان سے فوری طور پر بامقصد مزاکرات کرکے انہیں احتجاج کے اذیت سے نجات دلائی جائے۔
نصراللہ بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبگر بلوچ، بیبو بلوچ، گل ذادی، شاہ جی صبغت اللہ، غفار قمبرانی اور عمران بلوچ جبری گمشدگیوں اور بلوچ قوم کے جائز حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی پاداش میں پابند سلاسل ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ وہ سیاسی قیدی ہے اور سیاسی رہنماوں کو پابند سلاسل رکھنا پرامن آوازوں پر قدغن لگانے کی مترادف ہے، جسکی ملکی اور بین الاقوامی قوانین اجازات نہیں دیتے، اس لیے ہم حکومت سے ایک دفعہ پھر مطالبہ کرتے ہیں وہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر پرامن جہد کاروں کی فوری غیر مشروط باعزت رہائی کو یقینی بنائے۔