
تحریر: عزیز سنگھور
زرمبش مضمون
اسلام آباد کے ڈی چوک پر فروری 2021 کی سرد شام میں، ایک نوجوان بلوچ لڑکی مریم نواز کے سامنے کھڑی تھی۔ آنکھوں میں آنسو، ہاتھ میں بھائی کی تصویر اور لبوں پر التجا: “ہمیں صرف بتا دیں، وہ زندہ ہے یا نہیں؟”
مریم نواز نے اس لمحے وعدہ کیا کہ وہ بلوچستان کے لاپتہ افراد کی آواز بنیں گی۔ انہوں نے ریاست سے سوال کیا، اداروں پر تنقید کی، اور وعدہ کیا کہ "طاقت میں آکر انصاف دیا جائے گا”۔
آج 2025 ہے۔ مریم نواز خود پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ ہیں، ان کی پارٹی وفاق میں شریکِ اقتدار ہے۔ مگر بلوچستان کے لاپتہ افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔ وہی مائیں آج بھی اسلام آباد کی سڑکوں پر انصاف کی بھیک مانگ رہی ہیں۔ مگر مریم نواز خاموش ہیں۔ نہ وہ دوبارہ کیمپ میں گئیں، نہ ان کی حکومت نے اس درد پر کوئی قانون سازی کی۔ کہیں سے آواز نہیں آئی۔ یہ خاموشی کیا ہے؟ سیاسی منافقت یا وقتی جذبات کی سیاست؟
بلوچستان کے لاپتہ افراد کا مسئلہ کوئی آج کا نہیں۔ یہ کئی دہائیوں سے حکومتی اداروں اور مظلوم عوام کے درمیان کھینچا جانے والا وہ خونی دھاگہ ہے جس پر کئی بار سیاست چمکائی گئی۔ مریم نواز نے بھی 2021 میں اسی دھاگے پر اپنا سیاسی پرچم لہرایا تھا۔ اس وقت عمران خان وزیر اعظم تھے، اور اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی عروج پر تھی۔ مریم نواز کو ایک موقع ملا کہ وہ بلوچوں کے دکھ پر سرکاری اداروں کو للکاریں اور انہوں نے للکارا۔
مگر آج جب اقتدار ان کے قدموں میں ہے، جب وہ حکم دے سکتی ہیں، تو ان کی زبان بند ہے۔ یہ تضاد منافقت سے کم نہیں۔
بلوچ مائیں اب یہ سوال کر رہی ہیں کہ کیا ہمارے دکھ صرف اپوزیشن کے دنوں کی ہمدردی کے قابل ہیں؟ کیا ہماری آنکھوں کے آنسو بھی حکومت کے مفادات سے مشروط ہیں؟۔
طاقت کے ایوانوں میں بیٹھ کر اگر آپ ان مظلوموں کے حق میں آواز نہیں اٹھا سکتے جن کے لیے آپ نے کیمپ میں آنسو بہائے تھے، تو یہ خاموشی بھی ایک ریاستی جبر کا حصہ ہے۔
بلوچ عوام کے لیے یہ صرف لاپتہ افراد کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک اجتماعی شناخت، ایک سیاسی وجود، اور انسان ہونے کی بقا کا سوال ہے۔
مریم نواز نے جو وعدے کیے تھے، وہ اب سیاسی اسکورنگ ثابت ہو رہے ہیں۔ اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ جنہوں نے "ریاست کو ماں بننے کا مشورہ” دیا تھا، آج خود اس ماں کی طرح سلوک کر رہی ہیں جو کچھ بچوں کو اپنا اور کچھ کو پرایا سمجھتی ہے۔
بلوچستان کے نوجوان، جو پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ سے مایوس تھے، اب سیاسی قیادت سے بھی امید توڑ رہے ہیں۔ مریم نواز کی یہ خاموشی محض ایک فرد کی خاموشی نہیں، یہ پورے پاکستانی سیاسی نظام کی بے حسی کا ثبوت ہے۔
اگر اب بھی وہ بیدار نہ ہوئیں، اگر اب بھی ان کی حکومت نے لاپتہ افراد کے مسئلے پر قانون سازی نہ کی، کم از کم تحقیقاتی کمیشن کو مؤثر نہ بنایا، تو وہ دن دور نہیں جب بلوچ نوجوان ان سب سے منہ موڑ لیں گے اور پھر یہ ریاست، یہ سیاست، سب کچھ بے معنی ہو جائے گا۔
وعدہ کرنا آسان ہے، نبھانا مشکل ہے۔ سیاست اگر انسانیت سے خالی ہو، تو وہ صرف کرسی کی جنگ رہ جاتی ہے۔
بلوچ لاپتہ افراد کا مسئلہ کوئی سیاست کا میدان نہیں، یہ انسانوں کی زندگیوں، ان کے خوابوں اور ان کے جنازوں کا سوال ہے۔
مریم نواز اگر واقعی اس ملک کی سیاستدان ہیں، تو بلوچستان کی ماؤں کے آنسوؤں کی لاج رکھیں ورنہ تاریخ انہیں ان ہی آنکھوں کی نمک خواری میں دفن کر دے گی۔