
تحریر: سرباز وفا
کبھی کبھی دل پر ایسا بوجھ اُترتا ہے کہ لفظ بےمعنی ہو جاتے ہیں۔ جذبات کا اظہار صرف خاموش آنسوؤں کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ آنسو، جو باہر سے محض نمی لگتے ہیں، درحقیقت اندر کے ایک ٹوٹے ہوئے جہان کا عکس ہوتے ہیں۔
جب خواب بکھر جائیں، امیدیں دم توڑ دیں، تو دل میں ایک طوفان جنم لیتا ہے۔ یہ طوفان چیختا نہیں، بلکہ خاموشی سے آنکھوں کے راستے بہہ نکلتا ہے، اور ہر قطرہ ایک کہانی سناتا ہے۔
آنسوؤں کا یہ طوفان سب کچھ بہا لے جاتا ہے ، ہنسی، سکون، حتیٰ کہ خود پر یقین بھی۔ مگر شاید یہی طوفان وہ پہلا قدم ہوتا ہے، جس کے بعد انسان خود کو دوبارہ جوڑنا سیکھتا ہے۔ جو بکھرا ہوتا ہے، رفتہ رفتہ جُڑنے لگتا ہے۔ یہ آنسو کمزوری نہیں ہوتے بلکہ وہ طاقت ہوتے ہیں جو دل کو ہلکا کرتے ہیں۔ طوفان کے بعد جب سکون اُترتا ہے تو ایک نیا سفر شروع ہوتا ہے ، درد کے بعد امید کا، اور اندھیرے کے بعد روشنی کا۔
بلوچستان کی مٹی صرف خشک زمین اور سنگلاخ پہاڑوں کی نہیں، یہ مٹی آنسوؤں سے تر ہو چکی ہے۔ کیونکہ یہاں ہر گھر میں ایک کہانی ہے۔ ایک بیٹا جو لوٹا نہیں، ایک شوہر جو اچانک لاپتا ہو گیا، ایک بھائی جس کی خبر صرف خاموشی میں ملتی ہے۔ اور ان سب کہانیوں میں جو شے مشترک ہے، وہ ہے آنسوؤں کا طوفان۔
پاکستانی فوج کی جبری گمشدگیوں کا نشانہ بننے والے افراد کے پیچھے رہ جانے والے رشتہ دار ، مائیں، بہنیں، بیویاں اور بچے — ہر روز ایک نئے درد سے گزرتے ہیں۔ ہر دروازے کی دستک انہیں امید دیتی ہے کہ شاید آج ان کا پیارا لوٹ آئے۔ مگر جب دروازہ کھلتا ہے، تو سامنے صرف خالی ہوا ہوتی ہے — اور آنکھوں میں ایک نیا طوفان اُمنڈ آتا ہے۔مہینوں نہیں، بلکہ سالوں سے کچھ مائیں اپنے بیٹوں کی تصویریں ہاتھ میں لیے سرد و گرم موسموں میں احتجاجی کیمپوں میں بیٹھی ہیں۔ ان کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو اب سوال بن چکے ہیں:
کیا ہمارے بچوں کا جرم صرف بلوچ ہونا تھا؟
کیا ماں بننا جرم ہے؟کیا انصاف مانگنا بغاوت ہے؟
یہ آنسو صرف ذاتی دکھ کا اظہار نہیں، بلکہ ریاستی جبر کے خلاف ایک خاموش احتجاج بھی ہیں۔ یہ طوفان نہ صرف دلوں کو توڑتا ہے، بلکہ ضمیر کو بھی جھنجھوڑتا ہے۔ یہ وہ طوفان ہے جو بے رحم خاموشی کے خلاف اُٹھتا ہے۔ جو انکار کی دیواروں سے ٹکراتا ہے — اور ایک دن سچائی کی روشنی ضرور لائے گا۔
مگر جب تک وہ دن نہیں آتا، بلوچستان کی گلیوں میں سسکیاں گونجتی رہیں گی، لاپتہ افراد کے نام پکارے جاتے رہیں گے، اور آنسوؤں کا یہ طوفان تھمتا نہیں۔ کیونکہ اس کے پیچھے ایک سوال ہے، ایک امید ہے، ایک انصاف کی پیاس ہے۔یہاں ہر گھر، ہر بستی، ہر دل میں آنسوؤں کا ایک طوفان برپا ہے۔ یہ آنسو صرف ذاتی غم کے نہیں، بلکہ بےگناہ لاپتہ افراد کی ماؤں، بہنوں اور بچوں کی سسکیوں کا شور ہیں۔
یہ تحریر سیما اور نادیہ کے آنسوؤں پر لکھی گئی ہے۔
ان کی پلکوں پر ٹھہرے قطرے، بلوچستان کے ہر گمشدہ چہرے کا پتہ پوچھتے ہیں۔ یہ آنسو رو رہے ہیں، مگر تھک نہیں رہے۔ یہ بہتے ہیں، مگر بکھرتے نہیں۔ان شاء اللہ، یہی آنسو ایک دن سچ کا دروازہ کھولیں گے۔
اسی طوفان کا ایک دردناک باب شبیر بلوچ ہیں۔ وہ ایک نوجوان طالب علم اور پرامن سیاسی کارکن ہے، جسے 4 اکتوبر 2016 کو کیچ کے علاقے گورکوپ سے ریاستی اداروں نے لوگوں کے سامنے اغوا کیا۔ وہ تاحال لاپتہ ہے۔
اس کی بیوی اور ماں آج بھی اس کے انتظار میں زندہ لاش بنی بیٹھی ہیں۔
ایک بیوی، جو ہر رات آنکھوں میں اس کے چہرے کی دھندلی تصویر لیے سوتی ہے۔
اور ایک ماں، جس کی ممتا ہر روز خدا سے فریاد کرتی ہے:
"یا اللہ! میرے بیٹے کو مجھ تک واپس پہنچا دے…
یا کم از کم اس کی قبر دکھا دے!”
اسی طرح عبدالغفار لانگو کو ریاستی اداروں نے 11 دسمبر 2009 کو کراچی سے اغوا کیا۔ مہینوں تک انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اور پھر یکم جولائی 2011 کو ان کی مسخ شدہ لاش پھینک دی گئی۔
جسم پر تشدد کے وہ نشانات تھے، جو انسانیت کو شرمندہ کر دیں۔ان کی شہادت صرف ان کے بچوں کے لیے باپ کے بچھڑنے کا غم نہیں، بلکہ ایک ایسا زخم ہے، جو ہر بلوچ بچے کے دل پر نقش ہے۔
شبیر بلوچ، عبدالغفار لانگو اور ہزاروں دوسرے لاپتہ افراد وہ چہرے ہیں جن کی یادیں ان کے گھروں میں زندہ ہیں،
مگر ان کا وجود، بغیر عدالتی فیصلے، بغیر کسی الزام، ریاست کی جیلوں یا گمنام قبروں میں دفن ہے۔
آنسوؤں کا یہ طوفان اب سوال بن چکا ہے:
کیا ان مظلوموں کا کوئی حق نہیں؟
کیا ان کے خاندان انسان نہیں؟
کیا اسلام صرف کتابوں میں باقی رہ گیا ہے؟
جب تک شبیر بلوچ واپس نہیں آتا،جب تک عبدالغفار لانگو جیسے شہداء کا انصاف نہیں ہوتا،تب تک بلوچستان کی فضاؤں میں آنسوؤں کا طوفان رکتا نہیں۔
سیما بلوچ کے آنسوؤں کی کہانی
سیما بلوچ، اپنے بھائی شبیر بلوچ کے اغوا کے بعد لمحہ بہ لمحہ پگھلتی جا رہی ہے۔
اس کی آنکھیں اب وہ دریا بن چکی ہیں، جو کبھی خشک نہیں ہوتیں۔
وہ دن رات سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہیں ، ہاتھوں میں بینرز، آنکھوں میں درد، اور دل میں امید لیے۔
وہ ہر روز یہی سوال دہراتی ہیں:
"میرا بھائی کہاں ہے؟
کیا وہ سانس لے رہا ہے؟
اگر وہ مر چکا ہے، تو اس کی قبر دکھا دو!”
"میں ایک مجبور بہن ہوں،
اور بہن اپنے بھائی کی جدائی پر کبھی خاموش نہیں رہتی!”
اسلام آباد کی سرد ہواؤں میں سیما کا احتجاج فقط الفاظ نہیں،بلکہ آنسوؤں میں لپٹی ہوئی ایک پکار ہے ۔
ایسی پکار، جو پتھر دل ایوانوں کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہے۔
نادیہ بلوچ کے آنسوؤں کی صدا
نادیہ بلوچ، شہید عبدالغفار لانگو کی بیٹی اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی بہن ہے۔وہ اپنے باپ کی مسخ شدہ لاش کو بھی دیکھ چکی ہے، اور بہن کے کندھوں پر اٹھتے شعور کے بوجھ کو بھی۔
اسلام آباد میں جاری احتجاج میں وہ خاموش کھڑی ہوتی ہے،مگر اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو، چیخ بن جاتے ہیں۔وہ کہتی ہے:
"ہم صرف لاشیں اٹھانے کے لیے نہیں جئیں گے،
ہم سچ کی روشنی کے وارث ہیں۔
میرے بابا کو شہید کیا گیا،
اور میری بہن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو ماورائے عدالت قید کیا گیا۔
اب ہمیں خاموش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے،
مگر ہم نہیں رکیں گے!”
نادیہ بلوچ کے آنسو، باپ کے زخموں کی ترجمانی ہیں۔
اس کی خاموشی میں ایک کہانی ہے ، ایک صدمہ، ایک سوال، اور ایک عزم بھی۔
یہی آنسوؤں کا طوفان، یہی چیخ و پکار تھی،
جس نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو ایک باشعور اور باہمت قومی رہنما میں ڈھال دیا۔
وہ آج بھی پاکستان کے آئین کے دائرے میں رہ کر انصاف کی جدوجہد کر رہی ہے۔
مگر شاید ریاست اس سچائی سے بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے۔
اسی لیے اُس کی مضبوط اور باوقار آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کی گئی،
اور اُسے ماورائے عدالت قید کا نشانہ بنایا گیا۔
ریاست نے سیما بلوچ کی آواز دبانے کے لیےشبیر بلوچ کی موت کی سازش رچائی،مگر وہ یہ بھول گئے کہ سیما بلوچ، بلوچ قوم کی بہادر بیٹی ہے۔
اسے خاموش کروانے کی ہر کوشش ناکام رہی۔
جیسے آنسوؤں کے طوفان نے ماہ رنگ بلوچ کو فولاد بنایا،
ویسے ہی نادیہ بلوچ بھی کبھی کمزور نہ ہوگی۔
اور اب، یہ آنسو سیما بلوچ کو بھی پہچان چکے ہیں۔
انہیں معلوم ہے کہ یہ بیٹی، آنسو بہا کر کمزور نہیں ہوتی،
بلکہ ان آنسوؤں سے وہ اور بھی مضبوط ہو جاتی ہے۔