
بلوچ وومن فورم کے مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر شلی بلوچ نے ساتھیوں کے ہمراہ آج تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ آپ بخوبی آگاہ ہیں، بلوچ وومن فورم نے 27 جولائی کو گوادر پریس کلب میں ایک روزہ کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا تھا، جس کا مقصد بلوچوں کی سیاسی شرکت، جبری گمشدگیوں، گرفتاریوں اور بڑھتے ہوئے ریاستی جبر پر تنقیدی مکالمہ تشکیل دینا تھا۔ اس کانفرنس کی تیاری کے سلسلے میں ہماری ٹیم نے گوادر شہر اور گرد و نواح میں وسیع پیمانے پر عوامی آگاہی مہم، وال چاکنگ اور رابطہ مہم کا آغاز کیا۔
انہوں نے کہا کہ تاہم، اس پُرامن اور آئینی جدوجہد کے دوران ہمیں ریاستی اداروں کی جانب سے ناقابلِ قبول نوعیت کی رکاوٹوں، ہراسانی، اور مسلسل نگرانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم پر سایہ فگن کیا گیا، پروفائلنگ کی گئی، اور بالآخر ہمیں گوادر پولیس نے بلا جواز اور ماورائے آئین حراست میں لے کر وومن پولیس اسٹیشن منتقل کر دیا۔ وہاں ہمارے ساتھ تفتیشی عمل غیر انسانی، غیر پیشہ وارانہ اور توہین آمیز تھا، جس کا مقصد فقط ذہنی اذیت دینا اور ہماری سیاسی حوصلہ شکنی کرنا تھا۔
ہمیں غیر متعلقہ اور اشتعال انگیز سوالات کا سامنا کرنا پڑا، اور ہم پر یہ دباؤ ڈالا گیا کہ ہم تحریری طور پر کانفرنس کی منسوخی کا اعلان کریں۔ جب ہم نے اس غیر آئینی مطالبے سے انکار کیا تو ہمیں زبردستی گوادر سے تربت منتقل کر دیا گیا — یہ عمل انسانی وقار اور شہری آزادیوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔
ہم اس سراسری جبر اور ریاستی استبداد کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ امر باعثِ افسوس ہے کہ جب بھی بلوچ وومن فورم سیاسی شعور کے ساتھ اپنے بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہیں، تو انہیں غیر مرئی قوانین اور غیر رسمی طاقتوں کے ذریعے خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ 27 جولائی کا کانفرنس نہ صرف آئینی حدود میں تھا بلکہ اس کا مقصد ایک فکری و جمہوری مکالمے کو جنم دینا تھا، تاکہ بلوچ عوام کی سیاسی شرکت کو تقویت دی جا سکے۔
پریس کانفریس میں کہا گیا کہ بلوچستان میں سیاسی تنظیمیں، سول سوسائٹی، خصوصاً بلوچ یکجہتی کمیٹی اور این ڈی پی اس وقت ایک منظم ریاستی کریک ڈاؤن کا سامنا کر رہی ہیں۔ کارکنان کو بلا وارنٹ گرفتار کرنا، اور سیاسی سرگرمیوں کو “قومی سلامتی” کے نام پر جرم قرار دینا اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ جمہوریت کا مفہوم یہاں صرف طاقتور طبقات کے لیے محفوظ ہے۔
بلوچ وومن فورم یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ ہماری جدوجہد نہ صرف آئینی و جمہوری ہے بلکہ اس کا ماخذ بلوچ عوام کی صدیوں پر محیط مزاحمتی روایت ہے، جس میں حوصلہ، خودداری اور دانشوری بنیادی ستون ہیں۔ ہم اس جبر کے آگے سرنگوں نہیں ہوں گے، اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کو مزید مربوط اور مؤثر انداز میں جاری رکھیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم ریاست سے یہ دو ٹوک مطالبہ کرتے ہیں کہ بلوچوں کو اُن کے بنیادی انسانی، سیاسی اور سماجی حقوق سے محروم کرنے کا سلسلہ فوری طور پر روکا جائے۔ انہیں ملک کی دیگر اقوام کی طرح مکمل شہری حیثیت دی جائے، اور اُن کی سیاسی آواز کو عزت و قبولیت دی جائے۔
ہم اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ عالمی صحافتی ادارے، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور عالمی ضمیر اس تمام صورتِ حال کا نوٹس لیں، تاکہ بلوچوں کی آواز کسی خندق میں دفن نہ ہو جائے۔
کانفریس کے آخر میں کہا گیا کہ ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے بتانا چاہتے ہیں کہ بلوچ وومن فورم اپنی بنیادی حقوق، بلوچ مفاد ، اور سیاسی جد جہد میں کسی بھی صورت دستبردار نہیں ہوگی،اور ہم اپنی سیاسی جد جہد کومزید تیزی کے ساتھ جاری رکھیں گے۔